سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(213) رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کاحکم

  • 1669
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1241

سوال

(213) رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کاحکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں بعد رکوع کے ہاتھ باندھنا صحیح ہے یا نہیں۔ اس بارہ میں مسئلہ سمجھنے کی غرض سے چند ایک عبار۱ت پیش خدمت ہیں کچھ وقت نکال کر وضاحت فرما دیں شکراً جزیلاً جزاک اﷲ خیراً۔

« عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ عَنْ اَبِيْهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِﷺاِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوةِ قَبَضَ بِيَمِيْنِه عَلٰی شِمَالِه»النسائى جلد1 ص 105 كتاب افتتاح باب وضع اليمين على شمال فى الصلوة)

اور نیز مسلم شریف ص ۱۹۰ کی روایت میں آپ ﷺسے طویل دعا مروی ہے اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک روایت میں کہتے ہیں :ثُمَّ قَامَ طَوِيْلاً قَرِيْبًا مِنَ الرُّکُوْعِ الحديث(صحيح ابوعوانه ص136ج2) (رکوع کے بعد رکوع کے قریب لمبا قیام فرمایا تو ہاتھ باندھنے ضروری ہوئے) اور حنفی عالم علامہ ابوبکر کاسانی اپنی کتاب بدایع الصنائع ص۱۵۲ج۱ میں لکھتے ہیں ’’وَکَذٰلِکَ مَرْوِیٌّ عَنْ اَبِیْ حَنِيْفَةَ وَ مُحَمَّدٍ اَنَّهُمَا يَضَعُهُمَا کَمَا يَضَعُ يَمِيْنَه عَلٰی يَسَارِه فِی الصَّلٰوةِ‘‘  اور  علامہ عبدالحی لکھنوی اس مسئلہ سے متعلق طویل بحث کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’ … لاَ مُضَائقَةَ فِی إِخْتِيَارِه بَعْدَ ظُهُورِ مُوَافَقَتِه ‘‘(شرح الوقايه ج 1 ص159) ان حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ بعد رکوع قیام کی صورت میں ہاتھ باندھ لینے چاہئیں اور رسول اللہ ﷺسے قولاً، فعلاً ، تقریراً بھی ثابت ہے جبکہ رفع الیدین نماز میں صرف فعلاً اور تقریراً ثابت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

آپ نے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے لیے دلیل پیش فرمائی ہے :

« عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِﷺإِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوةِ قَبَضَ بِيَمِيْنِه عَلٰی شِمَالِه » النسائى-كتاب الافتتاح ج 1 ص105)

’’وائل بن حجر  فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب آپ کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھ اپنے بائیں ہاتھ کو پکڑتے تھے‘‘ انتہی ۔

آپ کی دلیل کے سلسلہ میں گذارش ہے کہ جو لفظ آپ نے ذکر فرمائے وہ واقعی قیام قبل الرکوع اور قیام بعد الرکوع دونوں کو شامل ہیں مگر یہ عموم مراد نہیں بلکہ اس سے صرف خاص قیام قبل الرکوع مراد ہے اس کی دلیل یہی وائل بن حجررضی اللہ عنہ والی حدیث ہے جس کے لفظ صحیح مسلم ج۱ ص۱۷۳ اور مسند احمد ج۴ ص ۳۱۷،۳۱۸ میں یوں ہیں

« ’’عَنْ أَبِيْهِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ أَنَّه رَأَی النَّبِیَّ ﷺ رَفَعَ يَدَيْهِ حِيْنَ دَخَلَ فِی الصَّلاَةِ کَبَّرَ وَصَفَ هَمَامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ ، ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِه ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنٰی عَلَی الْيُسْرٰی ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْکَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنَ الثَّوْبِ ، ثُمَّ رَفَعَهُمَا‘‘»

’’حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے نبیﷺ کو دیکھا جب نماز میں داخل ہوئے رفع الیدین کیا اللہ اکبر کہا ہمام (حدیث کا راوی ہے) نے اپنے کانوں کے برابر کر کے دکھایا پھر آپ نے اپنے کپڑے کو لپیٹا پھر اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا پھر جب رکوع کرنے کا ارادہ کیا کپڑے سے اپنے دونوں ہاتھوں کو نکالا پھر رفع الیدین کیا‘‘الحدیث ۔

اہل علم جانتے ہیں کہ لفظ ’’ثم‘‘ اور فاء دونوں ترتیب کے لیے آتے ہیں تو آپ «ثم وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنٰی عَلَی الْيُسْرٰی ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْکَعَ» الخ کے الفاظ پر غور فرمائیں تو بخوبی سمجھ جائیں گے کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ کے تکبیر تحریمہ اور رکوع کے درمیان ہاتھ باندھنے کو دیکھا اور بیان فرمایا ہے تو وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے یہ الفاظ دلالت کر رہے ہیں کہ ان کی حدیث کے الفاظ «رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِﷺإِذَا کَانَ قَائِمًا قَبَضَ» الخ اور الفاظ «رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِﷺوَاضِعًا يَمِيْنَه عَلٰی شِمَالِه فِی الصَّلاَةِ» نیز الفاظ « وَرَأَيْتُه مُمْسِکًا يَمِيْنَه عَلٰی شِمَالِه فِی الصَّلاَةِ» سے مراد قیام قبل الرکوع ہے۔

پھر صحیح ابن خزیمہ ج۱ص۲۴۲ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے الفاظ ہیں:

«قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِيْنَةَ ، فَقُلْتَ : لَأَنْظُرَنَّ إِلٰی صَلاَةِ رَسُوْلِ اﷲِﷺ، فَرَأَيْتُ حِيْنَ افْتَتَحَ الصَّلاَةَ کَبَّرَ، فَرَفَعَ  يَعْنِیْ يَدَيْهِ فَرَأَيْتُ اِبْهَامَيْهِ بِحِذَائِ أُذُنَيْهِ ، ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَه بِيَمِيْنِه ، ثُمَّ قَرَأَ‘‘۔ ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِيْثَ»

یہ الفاظ صاف صاف بتا رہے ہیں کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان ہاتھ باندھنے کو دیکھا اور بیان فرمایا چنانچہ امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے ان الفاظ پر باب منعقد فرمایا ہے« بَابُ وَضْعِ الْيَمِيْنِ عَلَی الشِّمَالِ فِی الصَّلاَةِ قَبْلَ الْقِرْأَةِ» تو امام صاحب موصوف ان الفاظ کے ساتھ باب منعقد فرما کر اشارہ کر رہے ہیں کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے الفاظ جہاں کہیں عام وارد ہوئے ہیں مثلاً

’’إِذَا کَانَ قَائِمًا‘‘ اور ’’ فِی الصَّلاَةِ‘‘ ان سے مراد قیام فی الصلوٰۃ قبل القراء ۃ ہی ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 185

محدث فتویٰ

 

تبصرے