السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کہا جاتا ہے زبانی ارتداد، زبان سے ارتداد کا لفظ ادا کرنے سے واقع ہوتا ہے، مثلاً دین کو گالی دینا اور کہتے ہیںکہ جو شخص اس قسم کی گالی وغیرہ کے ارتکاب کی وجہ سے مرتد ہوتا ہے۔ اس کے سابقہ تمام اعمال کالعدم ہوجاتے ہیں مثلاً نماز، روزہ، زکوۃ اور نذر کی ادائیگی وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ ارتداد سے توبہ کرنے کے بعد دوران ارتداد جو عمل چھوٹ گئے یا باطل ہوگئے تو کیا ان اعمال کی قضا واجب ہے یا نہیں؟ اگر واجب ہے تو کیا روزے پے درپے رکھنا ضروری ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ارتداد کی اقسام پہلے بیان ہوچکی ہیں۔ ارتداد میں یہ شرط نہیں ہے کہ مرتد اس قسم کے الفاظ ادا کرے کہ ’’میں اپنے دین سے مرتد ہوتا ہوں‘‘ یا ’’میں ان دین اسلام کو ترک کرتا ہوں‘‘ وغیرہ۔ لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کے الفاظ ادا کرے تو اس کا یہ کہنا بھی ارتداد کی ایک قسم شمار ہوگا۔ مرتد جب دوبارہ مسلمان ہوجائے تو اس پر یہ واجب نہیں ہوتا کہ زمانہ ارتداد میں چھوڑے ہوئے روزوں، نمازوں اور زکوۃ وغیرہ کی قضادے۔ مرتد ہونے سے پہلے حالت اسلام میں جو اس نے نیک اعمال کئے تھے، دوبارہ اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے بچ جائیں گے۔ کیونکہ اعمال ضائع ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کفر کی حالت میں مرنے کی شرط بیان کی ہے۔ سورۃ آل عمران میں ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ... ٩١﴾...آل عمران
’’وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور حالت کفر میں مرگئے‘‘۔
سورت بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ...٢١٧﴾...البقرة
’’اور جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور حالت کفر میں مرجائے تو ایسے لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں (سب) اعمال ضائع ہوگئے۔‘‘
باقی رہا نذر کا مسئلہ تو اس نے حالت اسلام میں جو نذر مانی تھی، وہ اس کے ذمہ باقی ہے۔ اگر وہ نذر نیک کام کی تھی تو اسلام میں دوبارہ داخل ہونے کے بعد اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح مرتد ہونے سے پہلے اس کے ذمے اللہ تعالیٰ یا بندوں کے جو حقوق تھے، مسلمان ہونے کے بعد بھی وہ (حقوق ) اسی طرح باقی رہیں گے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب