سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(253)اگر کوئی نوجوان مشت زنی میں مبتلا ہو جائے تو اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ ہم آپ سے شافی جواب کی توقع رکھتے ہیں

  • 16670
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1725

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مشت زنی کے متعلق شیخ قرضاوی کہتے ہیں اور امام احمد بن حنبل  رحمه الله عليه سے روایت کرتے ہیں کہ وہ منی کو جسم کے دوسرے فضلوں کی طرح ایک فضلہ سمجھتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے فصد کی طرح اسے جائز قرار دیا ہے۔ ابن حزم کا مذہب بھی یہی ہے اور وہ (محلی) کے ص ۱۶۶ پر اسی مکتب فکر کی تائید کرتے ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے کہ امام احمد اسے مطلقاً جائز قرار دیتے ہیں اور اس کی کیا دلیل ہے؟ پھر ایسی مصیبت ہے جس کا ہم اللہ کے ہاں شکوہ کرتے ہیں کہ نوجوان جب اس کام میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو اس حالت میں رزوں کو بھول جاتے ہیں جن کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔ ایسے ہی نوجوانوں میں سے کسی نے ہمیں یہ بتلایا کہ ایسے نوجوان کپڑے یا روئی سے کسی بے ریش لڑکے یا کسی نوجوان لڑکی کی شرمگاہ یا دبر کی سی شکل بنا لیتے ہیں۔ پھر اس شکل میں یہ نوجوان اپنا ذکر داخل کر کے وطی کرتا ہے… وغیرہ۔ (خالد۔ ا۔ ع۔شیبہہ الدوحہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل علم کے اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق مشت زنی حرام ہے اور علماء کی اکثریت کا قول یہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل قول میں عموم ہے:

﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿٧﴾...المؤمنون

’’اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے) جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ (ان سے مباشرت کرنے سے) انہیں ملامت نہیں اور جو ان کے سوا کسی اور چیز کے طالب ہوں تو یہی لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں۔‘‘

گویا اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی ثناء کی جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور اپنی خواہش کو اپنی بیوی یا کنیز کے علاوہ کسی بھی اور طریقہ سے پورا نہ کیا اور جو شخص ان صورتوں کے علاوہ کسی بھی صورت میں اپنی خواہش پوری کرتا ہے اس کے متعلق ’’زیادتی کرنے والا‘‘ کا فیصلہ دیا۔ جو اس چیز سے آگے نکل جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حلال کیا ہے۔ اس آیت کے عموم میں مشت زنی بھی داخل ہے۔ جیسا کہ اس پرحافظ ابن کثیر وغیرہ نے تنبیہ کی ہے۔ علاوہ ازیں اس عادت کے نقصانات بہت ہیں اور نتائج بہت خراب نکلتے ہیں۔ قویٰ مضحمل اور اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں۔ جبکہ شریعت اسلامیہ ہر اس کام سے منع کرتی ہے جس سے اس کے دین، بدن، مال اور آبرو کو نقان پہنچتا ہو۔

موفق ابن قدامہ ر اپنی کتاب ’’المغنی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اگر اپنے ہاتھ سے مشت زنی کرے تو اس نے حرام کام کیا۔ لیکن جب تک انزال نہ ہو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ہاں! اگر انزال ہو جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا کیونکہ وہ بوسہ کے معنی میں ہے۔‘‘اور بوسہ کے معنی سے ان کی مراد یہ ہے کہ انزال اس کے سبب سے ہو اور اگر بوسہ بغیر انزال کے ہو تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله عليہ مجموعہ فتاویٰ ج۳۴ صفحہ ۳۲۹ پر کہتے ہیں: ’’رہا مشت زنی کا مسئلہ تو وہ جمہور علماء کے نزدیک حرام ہے۔ اور حنبلی مذہب کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول یہی ہے۔ اس قول کے مطابق ایسا کام کرنے والے کو سزا دی جائے گی اور دوسرے قول کے مطابق یہ مکروہ ہے، حرام نہیں۔ جبکہ اکثر علماء اسے گناہ کے خوف یا کسی دوسری وجہ سے مباح نہیں سمجھتے۔

علامہ محمد الامین الشنقیطی اپنی تفسیر اضواء البیان ج۵ ص ۷۶۹ پر یوں رقمطراز ہیں:

’’تیسرا مسئلہ: جان لیجئے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس آیت میں:

﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾...المؤمنون

’’ایمان لانے والے مراد کو پہنچ گئے۔‘‘

﴿فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿٧﴾...المؤمنون

’’اور جو لوگ ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہی لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں۔‘‘

آیت کا عموم مشت زنی کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے جو جلد عمیرۃ کے نام سے معروف ہے اور اسے خضخضۃ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ جس شخص نے اپنے ہاتھ سے لذت حاصل کی حتیٰ کہ اس طرح اس کی منی نکل آئی تو اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اس کے لیے حلال کیا تھا، اس نے اس کے علاوہ اور راہ طلب کی۔ لہٰذا وہ مذکورہ آیت کریمہ کی رو سے زیادتی کرنے والوں سے ہے اور یہی سائل کے سوال کی صورت ہے۔ ابن کثیر نے یہ بھی ذکر کیا ہے: امام شافعی اور ان کے متبعین نے اسی آیت سے مشت زنی کی ممانعت پر استدلال کیا ہے۔

اور قرطبی کہتے ہیں کہ محمد بن الحکم نے کہا: میں نے حرملہ بن عبدالعزیز سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے امام مالک سے مشت زنی کرنے والے شخص کے متعلق پوچھا تو انہوں نے یہی آیت پڑھی:

﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿٧﴾...المؤمنون

’’اور جو لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں… تاآنکہ فرمایا… وہی  لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے یہ قید قبول کر لینے والے کے متعلق فرمایا کہ! اللہ تعالیٰ اس شخص کو معاف کرے گا اور بخش دے گا۔ اس بات سے مجھ پر واضح ہوتا ہے کہ اس آیت کریمہ سے اہل علم امام مالک اور امام شافعی وغیرہ نے جو جلد عمیرہ کی ممانعت پر استدلال کیا ہے تو وہ یہی مشت زنی ہے۔ جس کا کتاب اللہ سے استدلال صحیح ہے۔ جس پر قرآن کاظاہر دلالت کرتا ہے اور کتاب اللہ میں یا سنت میں ایسی کوئی چیز وارد نہیں جو اس سے معارض ہو اور امام احمد کے علم، ان کی جلالت شان اور ورع کے باوجود ان سے جو کچھ مشت زنی کی اباحت سے متعلق مروی ہے تو وہ محض اسے قیاس پر استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’وہ بدن سے ایسے فضلہ کا اخراج ہے۔ جسے نکال دینے کا ضرورت مطالبہ کرتی ہے۔ گویا انہوں نے اسے فصد اور پچھنے لگوانے پر قیاس کرتے ہوئے جائز قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں کسی شاعر نے کہا ہے:

اذا حللت بواد لا انیس به فاجلد عمرۃ لا عارَ ولا حَرَجَ

’’اگر تو کسی ایسے مقام پر ڈیرہ کرے جہاں کوئی انیس (عورت وغیرہ) نہ ہو تو مشت زنی کر لے۔ اس میں نہ کوئی شرم کی بات ہے اور نہ ہی کوئی حرج ہے۔‘‘

تو یہ بات راہ صواب کے خلاف ہے۔ اگرچہ اس کا کہنے والا کسی بھی معروف مقام پر ہو۔ کیونکہ یہ ایسا قیاس ہے جو قرآن کے ظاہر عموم کے خلاف ہے اور ایسا قیاس مردود ہے، جسے قیاس فاسد کہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم اس کتاب میں کئی بار اس کی وضاحت کر چکے ہیں اور اس بارے میں صاحب مراقی سعود کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے:

والخُلفُ للنَّصِّ او اجْمَاعٍ دَعَا فَسَادُ الاِعتبارِ کل مَنْ وعیَ

’’اور ایسا قیاس جو نص یا اجماع کے خلاف ہو، وہ فاسد سمجھا جائے گا ہر عالم کی یہی پکار ہے۔‘‘

گویا اللہ تعالیٰ نے جب یہ ارشاد فرمایا:

﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾...المؤمنون

’’اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘

تو دو قسم کے لوگوں کے سوا کسی کو بھی مستثنیٰ نہیں فرمایا اور وہ دو قسمیں اس آیت میں مذکور ہیں:

 ﴿إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾...المؤمنون

’’مگر اپنی بیویوں سے یا کنیزوں سے جو ان کی ملک ہوتی ہیں۔‘‘

اور یہ صراحت کر دی کہ صرف اپنی بیویوں سے یا اپنی کنیز سے اگر اپنی شرمگاہ کی حفاظت نہ بھی کریں تو ان پر ملامت نہیں کی جا سکتی۔ پھر اس کے بعد ایسا عام صیغہ استعمال فرمایا جو ان دو مذکورہ قسموں کے سوا ہر قسم کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے اور وہ یہ ارشاد ہے:

﴿فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿٧﴾...المؤمنون

’’اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں، وہی لوگ حد سے آگے نکل جانے والے ہیں۔‘‘

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عموم اپنے ظاہر کے لحاظ سے مشت زنی کو شامل ہے اور قرآن کے ظاہر عموم سے اس وقت تک عدول نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ کتاب وسنت میں کوئی ایسی دلیل موجود نہ ہو جسے اس طرف پھیرنا واجب ہو۔ رہا اس کے مخالف قیاس تو اسے فاسد سمجھا جائے گا۔ جیسا کہ اس کی وضاحت کر چکے ہیں۔ واللہ اعلم

اور ابوالفضل عبداللہ بن صدیق الحسنی ادریسی نے اپنی کتاب ’’الاستقصاء لادلة تحریم الاستنماء او العادة السریه من الناحیتین الدینیه والصحیه‘‘ میں یوں وضاحت کرتے ہیں:

پہلا باب: ’’مشت زنی کی حرمت اور اس کی دلیل‘‘ مالکی، شافعی، احناف اور جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ مشت زنی حرام ہے اور یہی وہ صحیح مذہب ہے جس کے علاوہ کوئی قول جائز نہیں اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے درج ذیل دلائل سے اس کی وضاحت ہو جائے گی۔

پہلی دلیل

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿٧﴾...المؤمنون

’’اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے) جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ (ان سے مباشرت کرنے سے) انہیں ملامت نہیں اور جو ان کے سوا کسی اور چیز کے طالب ہوں وہ (اللہ کی مقرر کردہ) حد سے نکل جانے والے ہیں۔‘‘

اس آیت کریمہ سے وجہ دلالت ظاہر ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں حرام کی ہیں ان سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت پر اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف کی۔ پھر بتلایا کہ اگر وہ بیویوں یا کنیزوں سے شرمگاہوں کی حفاظت نہ کریں تو اس میں نہ کوئی حرج ہے اور نہ ملامت۔ کیونکہ وہ شرمگاہ کی حفاظت کے اس عموم سے مستثنیٰ ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف کی ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یعنی جو شخص طلب کرے یعنی مذکورہ بیویوں اور کنیزوں کے سوا کوئی اور بات۔

یعنی وہ ظالم ہیں جو حلال کی حد سے گزر کر حرام تک جا پہنچتے ہیں۔ کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود سے آگے نکل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی رو سے ظالم ہے:

﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٢٩﴾...البقرة

’’اور جو شخص اللہ کی مقرر کردہ حدود سے آگے نکل جائے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘

گویا یہ آیت بیویوں اور کنیزوں کی دو قسموں کے سوا ہر قسم کی حرمت کے لیے عام ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مشت زنی ان دو قسموں کے علاوہ ہے۔ لہٰذا یہ حرام ہوئی اور اسے چاہنے والا قرآنی نص کی رو سے ظالم ہے۔

پھر مولف کتاب دوسرے دلائل کا ذکر کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کہا:

چھٹی دلیل:

علم طب میں یہ بات تجربہ میں آچکی ہے کہ مشت زنی کئی امراض کا سبب بنتی ہے۔ ان میں سے ایک ضعف بصارت ہے۔ یعنی معمول کے مطابق جتنے فاصلہ پر آنکھ دیکھ سکتی ہے اس سے نگاہ بہت کم رہ جاتی ہے۔ دوسری بیماری عضو تناسل کی کمزوری ہے۔ اس میں ڈھیلا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ خواہ یہ جزوی طور پر ہو یا کلیۃ ہو۔ اور مشٹ زن عورتوں کی طرح (یعنی نامرد) ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں وہ اہم مردمی امتیازات ناپید ہو جاتے ہیں۔ جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے۔ وہ شادی کے قابل نہیں رہتا اور اگر بالفرض شادی کر بھی لے تو کما حقہ، وظیفہ زوجیت ادا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی بیوی دوسروں کو اس بات پر مطلع کر دیتی ہے کیونکہ وہ اپنی پاک دامنی کی قدرت نہیں رکھ سکتی اور اس میں جو مقاصد ہیں، وہ کسی سے مخفی نہیں۔

ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کے عام اعصاب میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے جو اس فعل کے نتیجہ کے طور پر پیدا ہوتی ہے اور ایک یہ کہ اس کے معدہ میں اضطراب پیدا ہو جاتا ہے جو معدہ کے عمل کو کمزور اور نظام ہضم کو خراب کر دیتا ہے اور ایک یہ کہ اس کے اعضاء کی بالیدگی رک جاتی ہے۔ بالخصوص آلہ تناسل اور خصیتین کی کہ وہ اپنی بالیدگی کی حد کو نہیں پہنچ پاتے اور ایک یہ کہ خصیتین میں مادہ منویہ میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے اور ایسے شخص کو بہت جلد انزال ہونے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے ذکر کے محص کسی چیز سے چھونے یا رگڑ کھانے سے بھی اسے انزال ہو جاتا ہے۔

اور ایک یہ کہ اس کی کمر کے مہروں میں درد ہونے لگتا ہے کیونکہ یہی وہ صلب ہے جس سے منی کا اخراج ہوتا ہے۔ جس سے کمر میں خمیدگی اور ٹیڑھ پیدا ہو جاتی ہے۔

اور ایک یہ کہ مشت زن کا پانی تحلیل ہونے لگتا ہے۔ اس کے مادہ منویہ میں سختی اور گاڑھا پن نہیں رہتا۔ جیسا کہ عام حالات میں ایک آدمی کی منی ہوتی ہے۔ ایسے شخص کی منی پتلی اور منی کے کیڑوں سے خالی ہوتی ہے اور بسا اوقات اس میں کمزور سے کیڑے رہ جاتے ہیں جو حمل ٹھہرانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اگر ان سے حمل ٹھہر بھی جائے تو ان سے کمزور جنس پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مشت زنی کی اولاد ان لوگوں کی نسبت کمزور اور پیدائشی مریض ہوتی ہے جن کی اولاد طبعی منی سے پیدا ہوئی ہو۔

اور ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ اعضاء میں رعشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسے دونوں پاؤں میں۔

اور ایک یہ کہ مغز والی غدود میں ضعف پیدا ہوجاتا ہے۔ جس سے قوت مدرکہ کمزور پڑ جاتی ہے اور ایسا شخص ذہین ہونے کے باوجود قلیل الفہم ہو جاتا ہے اور بسا اوقات انہی مغز والی غدود کے مغز سے خالی ہونے کی وجہ سے عقل میں خرابی واقع ہو جاتی ہے۔

ان تصریحات سے سائل پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مشت زنی کے حرام ہونے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ جس کے دلائل اور نقصانات کا اوپر ذکر ہوچکاہے۔

اور جو شخص روئی وغیرہ سے فرج کی شکل بنا کر اس سے ایسا کام کرے، اس کا معاملہ بھی مشت زنی سے ہی جا ملتا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ