سجدہ تلاوت سنت موکدہ ہے۔اسے ترک نہیں کرنا چاہیے لہذا جب انسان آیت سجدہ کی تلاوت کرے خواہ قرآن مجید سے دیکھ کر یا زبانی نماز میں یا نماز سے باہر تو اسے سجدہ تلاوت ضرور کرنا چاہیے ہاں البتہ یہ سجدہ واجب نہیں ہے۔انسان اس کے ترک سے گناہ گار نہیں ہوگا۔ کیونکہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نےمنبر پر سورہ نحل کی آیت سجدہ پڑھی اور منبر سے اتر کرسجدہ کیا اور پھر انہوں نے دوسرے جمعے میں بھی اس آیت کی تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا الا یہ کہ ہم خودسجدہ کرنا چاہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساحضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی موجودگی میں کیا۔(صحیح بخاری کتاب السجود القرآن باب من رای ان اللہ عزوجل لم یوجب السجود ح:1077)
اس طرح ثابت ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سورہ النجم کی آیت سجدہ کی تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا۔( صحیح بخاری ابواب سجود القرآن وسنتھا باب من قراء السجدۃ ولم یسجد ح:1072'1073) اگرسجدہ تلاوت واجب ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیتے سجدہ تلاوت سنت موکدہ ہے۔ اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیاجائے۔ خواہ فجر کے بعد یا عصر کے بعد کا وقت ہی کیوں نہ ہوجس میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے کیونکہ اس سجدہ کا ایک خاص سبب ہے۔ اور ہر وہ نماز جس کا خاص سبب ہو اسے اوقات کی ممانعت میں بھی اداکیا جاسکتا ہے جیسے سجدہ تلاوت اورتحیۃ المسجدوغیرہ۔(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ )ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب