صحیح بات یہ ہے کہ نماز باطل نہ ہوگی کیونکہ اس قسم کا شک اکثر وبیشتر صورتوں میں غیر اختیاری طور پر ہوتا ہے۔اور جسے نماز میں شک ہو اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم بیا ن فرمایا ہے اور شک کی دو قسمیں ہیں:
1۔انسان کو رکعات کی تعداد میں شک ہو اور ان میں سے ایک پہلو کو وہ ترجیح دے سکتا ہو تو اس صورت میں وہ قابل ترجیح صورت پر اعتماد کرے گا اور اسی کے مطابق نماز مکمل کرکے سلام کے بعد سجدہ سہو کرے گا۔
2۔انسان کو رکعات کی تعداد میں شک ہو اور ان میں سے کوئی ایک پہلو بھی قابل ترجیح نہ ہو تو وہ کم تعداد پر بنا کرے گا۔
کیونکہ کم تعداد یقینی اور زائد مشکوک ہے لہذا کم کو بنیاد بناتے ہوئے نماز کو مکمل کرکےسلام سے پہلے سہو کے دو سجدے کرے گا اور اس سے اس کی نماز باطل نہ ہوگی یہ تو ہے رکعات کی تعداد کے بارے میں شک کا حکم۔
اسی طرح اگراسے یہ شک ہو کہ اس نے دوسراسجدہ کیا ہے یا نہیں رکوع کیا یا نہیں؟تواس صور ت میں بھی جو پہلواس کے نزدیک قابل ترجیح ہو۔اس کے مطابق عمل کرے۔نماز کو مکمل کرلے اور سلام کے بعد سجدہ سہوکرلے اور اگر کوئی پہلو قابل ترجیح ہو تو اس کے مطابق عمل کرے۔ جس میں زیادہ احتیاط ہو یعنی اس رکوع یا سجدہ کو کرے۔ جس کے بارے میں شک ہو اور پھر باقی نماز کو پورا کرکے سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے ہاں البتہ جب وہ اس رکن کی جگہ تک پہنچ جائے جس کے ترک میں شک ہو تو دوسری رکعت اس رکعت کے قائم مقام ہوجائے گی۔جس کے کسی رکن کو اس نے ترک کیا ہے۔(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ )ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب