سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(506) نماز میں وسوسے اور شکوک

  • 16651
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 967

سوال

(506) نماز میں وسوسے اور شکوک
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجھے نماز کی رکعات کی تعداد میں بہت شک رہتا ہے۔حالانکہ میں نماز بلند آوازسے پڑھتی ہوں تاکہ جو پڑھا ہے اسے یاد رکھ سکوں لیکن پھر بھی شک رہتا ہے اور جب نماز سے فارغ ہوتی ہوں تو یوں محسوس کرتی ہوں جیسے کوئی رکعت یا سجدہ یا تشہد بھول گئی ہوں حالانکہ میں بہت کوشش کرتی ہوں کہ شک سے بچوں لیکن بے سود اُمید ہے آپ رہنمائی فرمایئں گے کہ میں شک سے کس طرح بچ سکتی ہوں۔کیا شک کی وجہ سے نماز کو دوہرانا واجب ہے ؟کیا کوئی ایسی دعا ہے جسے نماز کے شروع میں ازالہ شک کے لئے پڑھ لیا کروں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وسوسوں کے خلاف جنگ کرنا ان سے بچنا اور کثرت سے ((اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم)) پڑھنا واجب ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل أَعوذُ بِرَبِّ النّاسِ ﴿١ مَلِكِ النّاسِ ﴿٢ إِلـٰهِ النّاسِ ﴿٣ مِن شَرِّ الوَسواسِ الخَنّاسِ ﴿٤﴾... سورة الناس

'' کہہ دیجئے (اے پیغمبر! صلی اللہ علیہ وسلم ) کہ میں لوگوں کے پروردیگار کی پناہ مانگتا ہوں۔(یعنی) لوگوں کے حقیقی بادشاہ کی لوگوں کے معبود برحق کی وسوسہ ڈالنے والے (شیطان) کی بُرائی سے جو (اللہ کانام سن کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے۔''

نیز فرمایا:

﴿وَإِمّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطـٰنِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَميعٌ عَليمٌ ﴿٢٠٠﴾... سورة الاعراف

''اور اگر شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کسی طرح کا وسوسہ پیدا ہو تو اللہ سے پناہ مانگو۔بے شک وہ سننے والا (اور) سب کچھ جاننے والا ہے۔''

جب نماز یا وضوء سے فارغ ہونے کے بعد شک پیدا ہو تو اس شک کو جھٹک دیجئے اس سے اعراض کیجئے اس کی طرف التفات نہ کیجئے اور اعتماد کیجئے کہ نماز اور وضوء صحیح ہے۔اوراگر نماز کے اندر یہ شک ہوکہ معلوم نہیں آپ نے تین رکعات پڑھی ہیں۔ یا چار تو ا نہیں تین قرار دے کر نماز مکمل کرلو اور سلام سے قبل سہو کے دوسجدے کرلو کیونکہ جس شخص شخص کو اس طرح کا شک لاحق ہو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کوشیطان سے محفوظ رکھے۔(شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 422

محدث فتویٰ

تبصرے