السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چار رکعت والی نماز میں امام پڑھا رہا ہو تو ایک آدمی آتا ہے تو ایک رکعت ہو جاتی ہے دوسری رکعت پڑھ کر امام کھڑا ہوتا ہے تو رفع الیدین کرتا ہے جس آدمی کی ایک رکعت رہ جاتی ہے وہ بھی امام کی پیروی میں رفع الیدین کرے یا نہ کرے جبکہ حدیث میں دو رکعت کے بعد رفع الیدین ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مقتدی ، امام اور منفرد اپنی اپنی دوسری رکعت پر قعدہ سے اٹھ کر رفع یدین کرے۔
(۱) آیت خَاشِعُوْنَ : تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہما ’’لاَ یَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَہُمْ‘‘ کی سند میں محمد بن مروان سدی قابل اعتبار نہیں ہے کئی ایک محدثین نے اس کو کذاب کہا ہے اس کے علاوہ اس تفسیر کی جتنی سندیں ہیں سب ضعیف ہیں ۔ پھر وتروں کی تیسری رکعت میں قنوت کے وقت رفع الیدین کیوں کی جاتی ہے ؟
(۲) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث بخاری شریف اور مسلم شریف میں رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنے کی حدیث ہے جس کو مسند حمیدی میں نہ کرنے کی بنایا گیا ہے پھر مسند حمیدی میں اس کی سند بھی منقطع ہے۔
(۳) براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ابوداود اپنی کتاب سنن میں ’’لَیْسَ بِصَحِیْحٍ‘‘ کہتے ہیں کہ روایت صحیح نہیں ہے ۔
(۴۔۵) جابر بن سمرہ والی حدیث (مسلم۔الصلاۃ۔باب الامر بالسکون فی الصلاۃ)میں رکوع والے رفع الیدین کا کوئی ذکر نہیں یہ رکوع والے رفع الیدین کے علاوہ کوئی اور رفع الیدین ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ رکوع والا رفع الیدین رسول اللہﷺ خود کیا کرتے تھے جیسا کہ بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث میں موجود ہے کہ رسول اللہﷺ رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے پھر غور کا مقام ہے کہ وتروں کی تیسری رکعت میں قنوت کے وقت رفع الیدین بھی سرکش گھوڑوں کی دم ہےیا نہیں ؟ یہ رفع الیدین پھر کیوں کیا جاتا ہے۔
(۶) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بخاری شریف والی حدیث میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں جس کا ترجمہ یا مطلب ’’رفع الیدین نہ کرتے تھے ‘‘ بن سکے اور اگر یہی مطلب نکلتا ہے تو پھر نماز کے شروع والے رفع الیدین کو چھوڑنا ہوگا نیز وتروں کی تیسری رکعت والے رفع الیدین کو چھوڑنا ہو گا کیونکہ ان دونوں رفع الیدین کا بھی ابوہریرہ کی اس حدیث میں ذکر نہیں۔
(۷) علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بخاری شریف والی حدیث میں بھی رکوع والے رفع الیدین کا ذکر نہیں اگر اس کا مطلب رفع الیدین نہ کرنا ہے تو اس میں تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کا بھی ذکر نہیں پھر وتروں کی تیسری رکعت والے رفع الیدین کا ذکر نہیں تو ان دونوں مقاموں میں بھی حنفی لوگ رفع الیدین چھوڑ دیں اگر وہ کہیں کہ شروع نماز میں رفع الیدین کی دوسری حدیثیں موجود ہیں تو پھر رکوع والے رفع الیدین کی بھی دوسری حدیثیں موجود ہیں لہٰذا وہ رکوع والے رفع الیدین کو بھی اپنا لیں اور سنت پر عمل کریں۔
(۸) علی بن حسین کی نبی کریمﷺ سے ملاقات نہیں کیونکہ یہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد پیدا ہوئے ہیں لہٰذا یہ روایت صحیح نہیں پھر اس میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں جس کا ترجمہ ’’صرف اللہ اکبر کہتے تھے‘‘ بنتا ہو پھر اس روایت میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں جس کا مطلب ’’رفع الیدین نہ کرتے تھے‘‘ بنتا ہو اور اگر کسی کو اس مطلب پر اصرار ہو تو پھر اس پر لازم ہے کہ شروع نماز والا اور وتروں کی تیسری رکعت والا رفع الیدین بھی چھوڑ دے کیونکہ اس روایت میں ان دونوں کا بھی ذکر نہیں ۔
(۹) عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی اس روایت کے متعلق ترمذی شریف میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود کی حدیث ثابت نہیں عبداللہ بن مبارک کا یہ فیصلہ نسائی شریف والی حدیث کے متعلق بھی ہے اس کی پوری تفصیل میری کتاب ’’مسئلہ رفع الیدین‘‘ میں دیکھ لیں ۔
(۱۰) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ’’ صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیُّﷺ وَمَعَ أَبِیْ بَکَرٍ‘‘ دار قطنی والی اور بیہقی والی صحیح نہیں کیونکہ اس کی سند میں محمد بن جابر ہے جس کے متعلق دارقطنی اور بیہقی میں لکھا ہے ۔ محمد بن جابر ضعیف ہے اس کی پوری تفصیل میری کتاب ’’مسئلہ رفع الیدین‘‘ میں دیکھ لیں ۔
(۱۱،۱۲،۱۳،۱۴) علی بن ابی طالب اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ عمل رسول اللہﷺ کے عمل رکوع والے رفع الیدین کے موافق نہیں کیونکہ صحیح بخاری صحیح مسلم اور دیگر کتب احادیث میں رسول اللہﷺ کا رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب