سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(229)رضائی بہن سے شادی نہیں ہوتی

  • 16614
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 959

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میں ایک نوجوان ہوں اور ایک آدمی کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ میں نے اس آدمی کی بیوی کا اس کی بیٹی کے ساتھ دودھ پیا ہے۔ وہ بیٹی جس کے ساتھ میں نے دودھ پیا تھا فوت ہو چکی ہے۔ اس کے بعد اس کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ کیا میرے لیے اس کی بیٹی سے شادی کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فتویٰ دیجئے اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ (صالح۔ م۔ ب)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس شخص کی بیوی نے جس کی بیٹی سے آپ شادی میں رغبت رکھتے ہیں، اگر آپ کو حولین کے اندر اندر پانچ یا اس سے زیادہ گھونٹ پلائے ہیں تو اب وہ تمہاری رضاعی ماں ہوگئی اور اس کا خاوند تمہارا رضاعی باپ ہے اور اس کی بیٹیاں تمہاری رضاعی بہنیں ہیں۔ لہٰذا کسی سے بھی تمہاری شادی جائز نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں محرمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:

﴿وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ ... ٢٣﴾...النساء

’’اور تمہاری مائیں بھی جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے اور تمہاری رضاعی بہنیں بھی (تم پر حرام کی گئیں ہیں)‘‘

اور نبیﷺ نے فرمایا:

((یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَب))

’’رضاعت سے وہ سب رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘

اور حضرت عائشہ رضى الله عنها سے رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔

((کَانَ فِیمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَّعْلُومَاتٍ یُّحَرِّمْنَ ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ فَتُوُفِّیَ النَّبیُ والامرُ علی ذلِکَ))

’’جو کچھ قرآن میں نازل ہوا وہ معلومہ دس گھونٹ تھے جو حرمت کا سبب بنتے تھے۔ پھر یہ حکم پانچ معلوم گھونٹوں کے حکم سے منسوخ ہوگیا۔ پھر جب نبیﷺ نے وفات ہوئی تو عمل اسی کے مطابق تھا۔‘‘

اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں اور ترمذی نے اپنی جامع میں روایت کیا اور یہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔ اور اس مسئلہ میں اور بھی احادیث ہیں۔

البتہ گھونٹ اگر پانچ سے کم ہوں یا دودھ پینے کا وقت دو سال کے بعد کا ہو تو ایسی رضاعت سے حرمت واقع نہیں ہوتی اور نہ ہی دودھ پلانے والی آپ کی ماں اور اس کا خاوند آپ کا باپ ہوگا۔ نہ ہی ایسی رضاعت سے ان کی بیٹیاں آپ پر حرام ہوں گی۔ مذکورہ حدیث سے متعلق اہل علم کے اقوال میں سے یہی بات زیادہ صریح ہے۔ اس کے علاوہ اور احادیث بھی ہیں، جن میں سے ایک آپﷺ کا یہ فرمان ہے:

((لَا رِضَاعَ الَّا فی الْحَولَیْنِ))

’’رضاعت وہی معتبر ہے جو بچپن کے ابتدائی دو سالوں میں ہو۔‘‘

نیز اپﷺ نے فرمایا:

((لَا تَحْرُمُ الرَّضْعة ولَا الرَّضْعَتان))

’’ایک گھونٹ یا دو گھونٹ دودھ پی لینے سے حرمت واقع نہیں ہوتی۔‘‘

آپﷺ کا یہ ارشاد دوسری احادیث میں ہے۔ جسے اہل علم نے ذکر کیا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ