سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(225)میرے بھائی نے چچا کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو چچی نے دعویٰ کیا کہ اس نے میرے بھائی کو دودھ پلایا ہے۔ پھر وہی چچی خود آئی جو اپنے بیٹے کے لیے میری بہن کا رشتہ مانگتی تھی۔ ہم کیا کریں؟

  • 16610
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 897

سوال

(225)میرے بھائی نے چچا کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو چچی نے دعویٰ کیا کہ اس نے میرے بھائی کو دودھ پلایا ہے۔ پھر وہی چچی خود آئی جو اپنے بیٹے کے لیے میری بہن کا رشتہ مانگتی تھی۔ ہم کیا کریں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میرا بڑا بھائی چچا کی بیٹی کا رشتہ مانگنے گیا تو چچی نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی اولاد کے ساتھ میرے اس بھائی کو دودھ پلایا ہے۔ کچھ مدت بعد وہی چچی ہمارے ہاں آئی کہ اپنے بیٹے کے لیے میری بہن کا رشتہ طلب کرے… ہم سوچ میں پڑ گئے اور اسے وہ بات یاد دلائی جو اس نے کہی تھی۔ یعنی اس نے اپنی اولاد کے ساتھ میرے بھائی کو دودھ پلایا ہے۔ اس نے اس کا اقرار کیا لیکن بعد میں مکر گئی اور کہنے لگی کہ اس نے کبھی میرے بھائی کو دودھ نہ پلایا تھا۔

کیا ہم اس کی پہلی والی بات پر اعتماد کریں یا دوسری پر؟ اور اس بارے میں شرع کی رائے کیا ہے؟ (جاری۔ ع۔ سبت العلایا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کا پہلا مذکورہ دعویٰ کہ اس نے آپ کے بھائی کو دودھ پلایا ہے، اس عورت کے بیٹوں کی تیری بہنوں سے شادی میں مانع نہیں۔ بشرطیکہ آپ کی بہنوں نے اس کا دودھ نہ پیا ہو اور نہ ہی اس کے بیٹوں نے آپ کی ماں کا دودھ پیا ہو۔ اور یہاں دوسری رضاعت تو ہے ہی نہیں، جو آپ کی بہنو کے اس کے بیٹوں کے ساتھ شادی میں مانع بن سکے۔

اور جب وہ عورت اپنے پہلے دعویٰ میں اپنے آپ کو خود جھٹلا رہی ہے تو آپ کے بھائی اس کی بیٹی کے ساتھ شادی میں بھی کوئی بات مانع نہیں۔

اور اگر آپ احتیاطاً اس کی بیٹیوں سے شادی نہ کریں تو یہ بہتر ہے۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:

((دَعْ مَا یُریبُکَ الی مَا لَا یُریبُکَ))

’’جس بات میں شک ہو اسے چھوڑ دو اور وہ اختیار کرو جس میں شک نہ ہو۔‘‘

نیز آپﷺ نے فرمایا:

((مَنِ اتَّقَی الشُّبُھاتِ؛ فَقدِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِه وَعِرْضِه))

’’جو شخض شبہات سے بچ گیا، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کر لیا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے