السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے امتحان سے پہلے کسی دن یہ نذر مانی تھی کہ اگر میں چھٹی جماعت سے پاس ہو کر پہلی متوسط کلاس میں چلا گیا تو قربانی کروں گا اور میں دوسری کوشش میں کامیاب ہوا، پہلی دفعہ نہ ہوا۔ کیا اب میں قربانی دوں گا یا نہیں؟ بات یہی تھی۔ اس پر چار سال گزر گئے اور میں نے اس نذر کو پورا نہ کیا یہ سمجھتے ہوئے کہ میں نے تو ایسی نذر مانی تھی کہ جب میں تیسری متوسط کلاس سے کامیاب ہو کر پہلی ثانوی میں چلا گیا… اب جب میں کامیاب ہو کر اول ثانوی میں چلا گیا ہوں تو کیا اب میں ایک قربانی دوں یا دو؟ (عبدالرحمن۔ س۔ ع)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب آپ نے نذر کو غیر مشروط رکھا اور پہلے دور میں کامیاب ہو کر جانے کی نیت نہیں تھی تو آپ کو اپنی نذر پوری کرنا لازم ہے کہ آپ اللہ کی رضا کے لیے قربانی کر کے اسے فقراء میں تقسیم کر دیں اور اس میں سے آپ خود آپ کے گھر والے کچھ نہ کھائیں۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((مَنْ نَذَرَ انْ یُطیعَ الله، فَلْیُطِعْه۔ ومَنْ نَذَرَ انْ یَعْصِیَ الله؛ فلَا یَعْصِه))
’’جس نے اللہ تعالیٰ کی فرمان برداری کرنے والی نذر مانی اسے چاہیے کہ وہ اسے پورا کرے اور جس نے اللہ کی نافرمانی والی بات کی نذر مانی، اسے چاہیے کہ وہ اسے پورا نہ کرے۔‘‘
اس حدیث کو بخاری نے اپنی صحیح میں عائشہ رضى الله عنها سے نکالا۔
اور اگر آپ نے پہلی کوشش میں کامیابی کی نذر مانی لیکن کامیاب دوسری کوشش میں ہوئے تو آپ پر کچھ نہیں۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا:
((انَّمَا الْاَعْمَالُ بالنِّیَاتِ، واِنَّمَا لکُلِّ امْرِىء مَا نَوَی))
’’اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر ایک کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی ہو۔‘‘
اس حدیث پر شیخین کا اتفاق ہے اور یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔
اسی طرح آپ کی وہ نذر ہے کہ جب آپ متوسط ثانوی میں کامیاب ہوگئے تو اسے پورا کرنا آپ پر حضرت عائشہ رضى الله عنها کی مذکورہ حدیث کے مطابق لازم ہے۔
اور اگر آپ نے پہلی یا دوسری نذر یوں مانی تھی کہ اپنے گھر والوں، اقرباء اور ہمسایوں کے لیے قربانی کریں گے تو اپنی نیت پر عمل کریں۔ جیسا کہ ابھی حضرت عمر رضى الله عنه والی حدیث کا ذکر ہوا ہے۔
اے بھائی! آپ کو چاہیے کہ آئندہ کبھی نذر نہ مانا کریں کیونکہ نذر اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے کچھ بھی لوٹا نہیں سکتی۔ نہ ہی یہ کامیابی کے اسباب میں سے کوئی سبب ہے۔ نبیﷺ نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا: ’’نذر کوئی بھلائی نہیں لاتی۔ البتہ اس طرح بخیل سے کجھ مال نکل جاتا ہے۔‘‘ جیسے کہ یہ صحیحین میں ابن عمر رضى الله عنه والی حدیث سے ثابت ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب