سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(490) کعبہ کے اندر نماز

  • 16595
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1199

سوال

(490) کعبہ کے اندر نماز
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا باہر کی نسبت کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کی زیادہ فضیلت ہے۔؟اور انسان نے کعبہ کے اندر جو دیکھا ہو کیا لوگوں کے سامنے اسے بیان کرنا جائز ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کعبہ کے اندر نماز مستحب ہے۔بشرط یہ کہ وہاں تکلیف مشقت اور لوگوں کو ایزاء پہنچائے بغیر با آسانی نماز پڑھنا ممکن ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کعبہ کے اندر داخل ہوکر نماز ادا فرمائی تھی۔جیسا کہ ''صحیحین'' سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی بھی مروی ہے کہ آپ کعبہ سے باہر غمگین ہوکرنکلے اور فرمایا:

«انني اخشي ان اكون قد شققت علي امتي»(سنن ابي دائود)

'' مجھے خدشہ ہے کہ شاید میں نے اُمت کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔''

اور جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«صلي في الحجر فانه من البيت» (سنن ابي دائود)

''حجر میں نماز پڑھ لو وہ بھی بیت اللہ ہی کا حصہ ہے۔''

اس سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا مستحب ہے۔قربت اوراطاعت ہے۔اور اس میں فضیلت بھی زیادہ ہے۔لیکن اس کے لئے مزا حمت نہیں ہونی چاہیے۔ نہ لوگوں کو کوئی ایذاء پہنچائی جائے اور نہ ایسا اقدام کیا جائے جس سے اپنے آپ کو یا لوگوں کو تکلیف ہو۔ اس فضیلت کے حصول کے لئے حجر میں نماز پڑھنا بھی کافی ہے۔ کہ وہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے۔ بیت اللہ کے نقش ونگار یا اس کی چھت اور دیوار کے بارے میں لوگوں کے سامنے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ میں نے وہاں یہ دیکھا ہے۔ سنت یہ ہے کہ بیت اللہ شریف کے اندرداخل ہوکر آدمی دو رکعت نمازادا کرے۔ بیت اللہ کے نواح میں تکبیریں کہے اور آسانی کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں جو دعاء کرنا ممکن ہو وہ کرے خصوصاً جامع قسم کی دعاؤں کو پڑھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور نواح میں تکبیریں کہیں اورپھر دعاء فرمائی۔ اور یہ تمام امور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔(شیخ ابن بازرحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 412

محدث فتویٰ

تبصرے