سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(489) نماز میں بسم اللہ کو سری طور پر پڑھنا افضل ہے

  • 16594
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1441

سوال

(489) نماز میں بسم اللہ کو سری طور پر پڑھنا افضل ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز میں سورہ فاتحہ یا دیگر سورت کی قراءت کے موقعہ پر بسم اللہ کے جہری طور پر پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علماء کا اس میں اختلاف ہے۔ بعض نے جہری پڑھنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ اور بعض نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔اور سری طور پر پڑھنے کو پسند کیا ہے۔اس مسئلے میں زیادہ راحج اور افضل یہی ہے کیونکہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ:

«كان النبي صلي الله عليه وسلم وابو بكر وعمر رضوان الله عنهم اجمعين لا يجهرون بسم الله الرحمٰن الرحيم »(سنن نسائي )

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی قراءت جہراً نہیں فرمایا کرتے تھے۔''

اس مفہوم کی بہت سی احادیث ہیں بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ۔۔۔کو جہراً پڑھنا مستحب ہے۔ لیکن یہ احادیث ضعیف ہیں۔ ہمارے علم میں کوئی ایک صحیح احادیث بھی ایسی نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ بسم ا للہ کو جہری طور پر پڑھا جائے۔لیکن اس مسئلہ میں کافی گنجائش اور سہولت ہے۔پس اس میں جھگڑا جائز نہیں ہے۔ لہذا اگر بعض اوقات امام اسے جہری پڑھ لے تاکہ مقتدیوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ امام اسے پڑھتا ہے۔تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن افضل یہ ہے کہ اکثر و بیشتر صورتوں میں اسے آہستہ پڑھا جائے۔تاکہ عمل صحیح احادیث کے مطابق ہو۔(شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 412

محدث فتویٰ

تبصرے