علماء کا اس میں اختلاف ہے۔ بعض نے جہری پڑھنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ اور بعض نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔اور سری طور پر پڑھنے کو پسند کیا ہے۔اس مسئلے میں زیادہ راحج اور افضل یہی ہے کیونکہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی قراءت جہراً نہیں فرمایا کرتے تھے۔''
اس مفہوم کی بہت سی احادیث ہیں بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ۔۔۔کو جہراً پڑھنا مستحب ہے۔ لیکن یہ احادیث ضعیف ہیں۔ ہمارے علم میں کوئی ایک صحیح احادیث بھی ایسی نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ بسم ا للہ کو جہری طور پر پڑھا جائے۔لیکن اس مسئلہ میں کافی گنجائش اور سہولت ہے۔پس اس میں جھگڑا جائز نہیں ہے۔ لہذا اگر بعض اوقات امام اسے جہری پڑھ لے تاکہ مقتدیوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ امام اسے پڑھتا ہے۔تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن افضل یہ ہے کہ اکثر و بیشتر صورتوں میں اسے آہستہ پڑھا جائے۔تاکہ عمل صحیح احادیث کے مطابق ہو۔(شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب