جب انسا ن نماز کو بھو ل جا ئے یا سو جا ئے اور پا س کو ئی بیدا ر کر نے یا یا د دلا نے وا لا نہ ہو اور وقت خا ر ج ہو جا ئے تو جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ہے :
اسے جب یا د آئے پڑ ھ لے اس کا یہی کفا رہ ہے ۔ اس حا لت میں جو سائل نے ذکر کی ہے اسے چا ہئے تھا کہ پہلے نماز عصر پڑ ھتا اور پھر مغرب تا کہ وہ اس تر تیب کے مطا بق نماز پڑ ھتا جسے اللہ تعا لیٰ نے فرض قرار دیا ہے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی نما ز یں جب ایک دن غز و ہ خندق کے دوران فو ت ہو گئی تھیں تو آپ نے انہیں تر تیب ہی سے پڑھا تھا اور آپ کا مشہو ر ارشاد گرا می ہے کہ :
'' تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نما ز پڑ ھتے ہو ئے دیکھتے ہو۔ ''
لہذا جب آپ مسجد میں آئے اور لو گ نما ز مغر ب ادا کر رہے تھے تو آپ ان کے سا تھ نماز عصر کی نیت کر کے شا مل ہو جا تے اور امام کے سلا م کے بعد با قی نماز پو ری کر لیتے لو گو ں کی یہ نماز مغر ب آپ کےلئے نما عصر ہو تی اور اس سے کو ئی فر ق نہیں پڑتا کہ امام مقتدی کی نیت الگ الگ ہو کیو نکہ افعا ل ایک جیسے ہیں اور امام جن اختلافا ت سے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فر ما یا ہے وہ نیت کے علا و ہ دیگر افعا ل ہیں اور آپ نے مغر ب کی نماز کو جو عصر سے پہلے پڑ ھ لیا تو یہ شر عی حکم سے نا واقفیت کی وجہ سے ہے لہذا اس مین کو ئی حر ج نہیں ۔ ( شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب