سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(202) بریلوی حضرات سے رفع الیدین کے متعلق سوالات

  • 1658
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 2466

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ کی خدمت اقدس ميں 10 سوال روانہ کر دئيے ہيں آپ برائے مہربانی صحيح احاديث سے حل فرما کر ميرے ايڈريس پر روانہ کر ديں؟ يہ سوال بريلوی حضرات کی طرف سے عدم رفع اليدين کے متعلق ہيں؟

(1) کيا رسول اللہﷺ کا آخری عمر شريف تک رفع اليدين کرنا ثابت ہے۔

(2) خلفاء راشدين حضرت ابوبکر صديق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عليحدہ عليحدہ ان کے اپنے اپنے دور ميں رفع اليدين کرنا ثابت ہے ؟

(3) امام طحاوی رحمہ اللہ، علامہ عينی رحمہ اللہ اور امام ابن ہمام رحمہ اللہ نے جو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے رفع اليدين کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کيا ہے کيا يہ صحيح نہيں ہے ؟

(4) علامہ عينی حنفی رحمہ اللہ نے جو عمدۃ القاری شرح بخاري ميں لکھا ہے۔ اِنَّہ ابْتَدَائُ الْاِسْلاَمِ ثُمَّ نُسِخَکہ رفع اليدين ابتداء اسلام میں تھا پھر منسوخ کر ديا گيا ؟

(5) اسلام کے ابتدائی زمانہ ميں جب لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور ان ميں سے بعض لوگ نماز پڑھتے وقت اپنی بغلوں ميں بت دبائے رکھتے تھے تب ہي تو رسول اللہﷺ نے رفع اليدين کا حکم ديا تھا اور بعد ميں رفع اليدين منسوخ کر ديا تھا جيسا کہ علامہ عينی رحمہ اللہ نے شرح بخاری ميں اس کا منسوخ ہونا لکھا ہے۔

(6) بخاری شريف جلد اول ص 74 ميں ہے۔ اَنَّ رَسُوْلَ اللہﷺ کَانَ يُصَلِّيْ وَہُوَ حَامِلٌ اُمَامَة: کہ حضورﷺ امامہ رضی اللہ عنہ کو (جو کہ آپﷺ کی نواسی تھی) اٹھا کر نماز پڑھتے تھے يہاں بھی کَانَ يُصَلِّيْ ہے اور رفع اليدين کي حديث ميں بھی کَانَ يُصَلِّي ہے ۔ اگر رفع اليدين ہر نماز ميں سنت ہے۔ تو نواسی کو اٹھانا بھی ہر نماز ميں سنت ہونا چاہيے؟

(7) حضرت علقمہ رحمہ اللہ کہتے ہيں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمايا کہ ميں تمہيں رسول اللہﷺ کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں۔ پھر نماز پڑھی اور ايک بار کے سوا ہاتھ نہ اٹھائے۔(ترمذی شريف جلد اول ص35 ابوداؤد جلد اول ص109 اور نسائی شريف ص117)

امام ترمذی  رحمہ اللہ نے اس حديث کو حسن کہا ہے اور فرمايا کہ اس حديث پر بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعين کا عمل ہے۔ سفيان ثوری رحمہ اللہ اور اہل کوفہ کا يہی قول ہے۔

(8) حضرت علقمہ رحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ ميں نے حضورﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور حضرت ابوبکر صديق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی۔ نہ تو حضورﷺ نے نہ صديق رضی اللہ عنہ نے نہ فاروق رضی اللہ عنہ نے رفع اليدين کيا سوا تکبير تحريمہ کے ؟(دارقطنی جلد اول ص11)

(9) مولانا صفدر سرفراز گکھڑوی کے شاگرد رشيد مناظر اسلام مولانا امين اوکاڑوی اپنی کتاب (مسئلہ رفع اليدين) ميں عدم رفع اليدين پر قرآن مجيد سے دليل پيش کرتے ہيں۔اَلَّذِيْنَ قِيْلَ لَہُمْ کُفُّوْآ اَيْدِيَکُمْ وَاَقِيْمُوْا الصَّلاَۃ ترجمہ مولانا امين صاحب اے ايمان والو ! اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو جب تم نماز پڑھو۔( النساء77)

(10) مسلم شريف ميں ہے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہيں کہ ہم پر رسول اللہﷺ نکلے اور فرمايا کيا ہے۔ مجھے کہ ميں تجھے رفع اليدين کرتا ہوا ديکھتا ہوں۔ گويا کہ سرکش گھوڑوں  کے دم ہيں۔ نماز ميں آرام کيا کرو۔ اگر رفع اليدين قبل رکوع۔ بعد از رکوع پہلے کرتے بھی تھے تو مسلم شريف کی اس حديث سے ممانعت ہو گئی۔ بعض حضرات جويہ کہتے ہيں کہ اس حديث ميں بوقت سلام اشارہ کر کے رفع اليدين کرنے کی ممانعت ہے ان کا خيال غلط ہے ۔ اس ليے کہ وہ حديث جس ميں بوقت سلام اشارہ کرنے کی ممانعت ہے ۔ وہ دوسری ہے اس حديث ميں تو رفع اليدين کا ذکر ہے اور دوسری حديث ميں رفع اليدين کا ذکر نہيں بلکہ ايمأ باليدين کا ذکر ہے کسی روايت ميں تو ’’تُؤْمُوْنَ‘‘ ہے ۔

کسی ميں  تُشِيْرُوْنَ اور اس حديث ميں اُسْکُنُوْا فِي الصَّلوۃ  جس سے معلوم  ہوتا ہے کہ رفع اليدين نماز ميں تھا جس کی ممانعت ہوئی اور سکون کا حکم فرمايا علامہ کاسانی حنفی ۔ بدائع الصنائع جلد اول  ص 207 ميں لکھتے ہيں ? رُوِيَ اَنَّہﷺ رَأي بَعْضَ اَصْحَابِہ يَرْفَعُوْنَ اَيْدِيَہُمْ عِنْدَ الرُّکُوْعِ وَعِنْدَ رَفْعِ الرَّأْس اُسْکُنُوْا فِي الصَّلاَۃ وَفي رِوَايَةِ قَارُوْا فِي الصَّلوۃ

مہربانی فرما کر ترتيب کے ساتھ ان سوالوں کا جواب حديث کے مطابق ديا جائے (طالب جواب)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

دس سوالوں کے جواب ترتيب وار مندرجہ ذيل ہيں بتوفيق اللہ تبارک وتعالٰی وعونہ۔

(1) حنفی لوگ وتروں کی تيسري رکعت ميں رفع اليدين کرتے ہيں سوال ہے کيا رسول اللہﷺ کا وتروں کی تيسری رکعت ميں آخری عمر شريف تک رفع اليدين کرنا ثابت ہے؟ اگر ہے تو دليل پيش کريں اگر نہيں تو پھر رکوع والے رفع اليدين کے متعلق يہ آخری عمر شريف والا سوال کيوں ؟ تو انصاف کا تقاضا ہے کہ وتروں کی تيسری رکعت والے رفع اليدين کا رسول اللہﷺ کی آخری عمر شريف تک ہونا ثابت کريں يا پھر رکوع والا رفع اليدين بھی شروع کر ديں کيونکہ اس کو آپ  رسول اللہﷺ سے ثابت تو تسليم فرما رہے ہيں صرف اس کے آخری عمر شريف تک ہونے کے ثبوت کو محل نظر قرار دے رہے ہيں اور آخری عمر شريف تک بلکہ پوری عمر شريف ميں صرف ايک دفعہ وتروں کی تيسری رکعت والے رفع اليدين کو بھی ابھی تک آپ ثابت نہيں کر پائے اس کے باوجو دآپ وہ کر رہے ہيں رہا رکوع والے رفع اليدين کے منسوخ ہونے کا دعویٰ تو وہ درست نہيں۔

صحيح بخاری اور صحيح مسلم ميں ہے

’’جب آپ ﷺ رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع اليدين کرتے‘‘

اور صحيح بخاری اور صحيح مسلم ميں ہی ہے

’’جب آپﷺ دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے تو رفع اليدين کرتے‘‘ (بخاری۔الاذان۔باب رفع اليدين فی التکبير۔ الاولی مع الافتتاح سواء۔ مسلم۔الصلاۃ۔باب استحباب رفع اليدين حذو المنکبين) اور معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ کا آخری عمر شريف تک رکوع کرنا ، رکوع سے سر اٹھانا اور دو رکعتوں سے اٹھنا ثابت ہے لہٰذا رسول اللہﷺ کا آخری عمر شريف تک ان تينوں مقاموں ميں رفع اليدين کرنا بھی ثابت ہوا۔

پھر افتتاح نماز والا رفع اليدين حنفی لوگ بھی کرتے ہيں آيا ان کے نزديک اس رفع اليدين کو رسول اللہﷺ کا آخری عمر شريف تک کرنا ثابت ہو چکا ہے؟ اگر جواب اثبات ميں ہے تو دليل پيش فرمائيں ورنہ رکوع والے رفع اليدين کی طرح اس کو بھی چھوڑ ديں اگر آپ فرمائيں کہ رکوع والا رفع اليدين منسوخ ہو چکا ہے تو يہ محض آپ کا اور آپ کے ہمنواؤں کا دعویٰ ہی ہے دليل اس کی کوئی نہيں۔

بعض حنفی تکبيرات عيدين ميں بھی رفع اليدين کرتے ہيں ان سے پوچھنا چاہيے کيا تکبيرات عيدين ميں رسول اللہﷺ کا آخری عمر شريف تک رفع اليدين کرنا ثابت ہے ؟ جواب اثبات ميں ہے تو دليل پيش کريں ورنہ اس رفع اليدين کو چھوڑ ديں کيونکہ رکوع والے رفع اليدين کو انہوں نے صرف اس ليے چھوڑ رکھا ہے کہ وہ ان کے نزديک آخری عمر شريف تک ثابت نہيں  جيسا کہ سوال سے ظاہر ہے۔

(2) حنفی وتروں کی تيسری رکعت ميں رفع اليدين کرتے ہيں کيا خلفاء راشدين حضرت ابوبکر صديق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے عليحدہ عليحدہ ان کے اپنے اپنے دور ميں وتروں کی تيسري رکعت ميں رفع اليدين کرنا ثابت ہے ؟ اگر ہے تو دليل پيش کريں ورنہ اس کو بھی چھوڑ ديں يا رکوع والا رفع اليدين شروع کر ديں کيونکہ رکوع والے رفع اليدين کا رسول اللہﷺ اور خلفاء راشدين رضی اللہ عنہم سے نفس ثبوت آپ کے ہاں بھی تسليم شدہ ہے صرف آپ کو ان سے آپ کی مندرجہ بالا شروط وقيود سے ثبوت ميں کلام ہے ورنہ سوالوں ميں آپ يہ قيود وشروط ذکر نہ فرماتے جبکہ آپ کی مندرجہ بالا قيود وشروط کا اہل اسلام کے ليے رفع اليدين پر عمل کرنے کے ليے نہ ثبوت ضروری ہے نہ اثبات باقي دعویٰ نسخ درست نہيں۔

(3) امام طحاوی ، علامہ عينی اور امام ابن ہمام نے جو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے رفع اليدين کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کيا ہے وہ صحيح نہيں کيونکہ وہ بلا دليل ہے مولانا عبدالحی حنفی لکھنوی التعليق الممجد کے ص89 پر لکھتے ہيں: ’’وَأَمَّا دَعْویٰ نَسْخِہ کَمَا صَدَرَ عَنِ الطَحَاوِی مُغْتَرًا بِحُسْنِ الظَنِّ بِالصَّحَابَةِ التَّارِکِيْنَ وَابْنِ الْہَمَامِ وَالْعَيْنِي وَغَيْرِہِمْ مِنْ أَصْحَابِنَا فَلَيْسَتْ بِمُبْرہنٍ عَلَيْہَا بِمَآ يَشْفِي الْعَلِيْلَ وَيَرْوِي الْغَلِيْلَ‘‘  نيز اسی صفحہ پر لکھتے ہيں ’’ لاَ يُجْتَرْأُ بِنَسْخِ أَمْرٍ ثَابِتٍ عَنْ رَسُوْلِ ﷺ بِمُجَرَّدِ حُسْنِ الظَنِّ بِالصَّحَابِيْ مَعْ إِمْکَانِ الْجَمْعِ بَيْنَ فِعْلِ الرَّسُوْلِ وَفِعْلِہ‘‘ ’’خلاصہ يہ ہے کہ رفع اليدين کو منسوخ کہنے کی کوئی دليل نہيں ہے‘‘

(4) علامہ عينی نے اس دعویٰ کے بعد لکھا ہے ’’وَالدَّلِيْلُ عَلَيْہِ أَنَّ عَبْدَاللہ اِ بْنَ الزُبَيْرِ رَایٰ رَجُلاً يَرْفَعُ يَدَيْہِ فِي الصَّلاَۃ عِنْدَ الرُّکُوْعِ وَعِنْدَ رَفْعِ رَأْسِہ مِنَ الرُکُوْعِ فَقَالَ لَہ: لاَ تَفْعَلْ فَإِنَّ ہذَا شَيْئٌ فَعَلَہ رَسُوْلُ االلہﷺ ثُمَّ تَرَکَہ‘‘  علامہ موصوف نے نہ تو اس روايت کی سند نقل کی ہے اور نہ کسی کتاب کا حوالہ ديا ہے جس ميں سند ديکھی جا سکے مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی التعليق الممجد کے صفحہ نمبر89 پر لکھتے ہيں ’’ ہذَا الْأَمْرُ لَمْ يَجِدْہالْمُخَرِّجُوْنَ الْمُحَدِّثُوْنَ مُسْنَدًا فِي کُتُبِ الْحَدِيْثِ‘‘  مزيد لکھتے ہيں ’’ مَا لَمْ يُوْجَدْ سَنْدُ أَثَرِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ الزُبَيْرِ فِي کِتَابٍ مِنْ کُتُبِ الْحَدِيْثِ الْمُعْتَبَرَ? کَيْفَ يُعْتَبَرُ بِہ بِمُجَرَّدِ حُسْنِ الظَنِّ بِالنَّاقِلِيْنَ‘‘

رہا علامہ عينی کا قول ’’ وَيُؤَيِّدُ النَّسْخَ مَا رَوَاہ الطَّحَاوِيُ‘‘ الخ تو اس کا جواب سوال 3 کے جواب ميں آ چکا ہے۔

(5) اس بتوں والی کہانی کی سند بيان فرمائيں مجھے تو ابھی تک اس کہانی کی کوئی سند نہيں ملی پھر غور فرمائيں جو لوگ افتتاح صلاۃ والے رفع اليدين کے وقت بغلوں کے بتوں کو گرنے نہيں ديتے آيا وہ رکوع والے رفع اليدين ميں ان کو گرنے ديں گے پھر جب وتروں کی تيسری رکعت ميں پہنچتے تو کيا وہ بتوں کو اٹھا کر پھر بغلوں ميں دبا ليتے تھے تو اس واقعہ کو اگر تسليم کر ليا جائے تو پھر افتتاح صلاۃ اور وتروں کی تيسری رکعت والے رفع اليدين سميت کل رفع اليدين منسوخ قرار پاتے ہيں آيا آپ ہر رفع اليدين کو منسوخ مانتے ہيں؟

(6) يہ سوال ان پر وارد ہو سکتا ہے جو کَانَ يَفْعَلُ سے استدلال کرتے ہيں جب کہ جواب اس کا بھی موجود مگر ہم کَانَ يَفْعَلُ سے استدلال نہيں کرتے لہذا ہم پر يہ سوال وارد ہی نہيں ہوتا ہم اپنا استدلال پہلے ذکر کر آئے ہيں سوال نمبر1 کا جواب پڑھ ليں۔

(7) امام ترمذی نے واقعی اس حديث کو حسن کہا ہے مگر حسن کہنے سے پہلے اسی حديث کے متعلق انہوں نے عبداللہ بن مبارک کا قول ’’لم يثبت‘‘ بھی تو نقل فرمايا ہے چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہيں ’’وَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ : قَدْ ثَبَتَ حَدِيْثُ مَنْ يَرْفَعُ وَذَکَرَ حَدِيْثَ الزُہْرِيْ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيْہِ ، وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ أَنَّ النَّبِيَّﷺ لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّۃ حَدَّثَنَا بِذلِکَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَۃ الْآمِلِيُ ثَنَا وَہْبُ بْنُ زَمْعَة عَنْ سُفْيَانَ بِن عَبْدِ الْمَلِکِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَکِ‘‘  اگر کوئی صاحب فرمائيں کہ امام ترمذی نے اس حديث کو حسن قرار دے کر عبداللہ بن مبارک کے قول ’’لَمْ يَثْبُتْ‘‘ کی ترديد فرما دی ہے تو جواباًگذارش ہے امام ترمذی کا کسی حديث کو حسن کہنا اس کے لَمْ يَثْبُت ہونے کے منافی نہيں بلکہ اس کے ساتھ مجتمع ہو سکتا ہے جيسا کہ امام ترمذی کی اپنے نزديک حسن کی تعريف سے واضح ہے چنانچہ وہ علل صغير ميں لکھتے ہيں ’’وَمَا ذَکَرْنَا فِي ہذَا الْکِتَابِ حَدِيْثٌ حَسَنٌ فَإِنَّمَا أَرَدْنَا حُسْنَ إِسْنَادِہ عِنْدَنَا کُلُّ حَدِيْثٍ يُرْوي لاَ يَکُوْنُ فِي إِسْنَادِہ مَنْ يُتَّہَمُ بالْکَذِبِ وَلاَ يَکُوْنُ الْحَدِيْثُ شَاذًا وَيُرْوي مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ نَحْوِ ذلِکَ فَہُوَ عِنْدَنَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ‘‘  تو يہ حديث امام ترمذی کے نزديک حسن لَمْ يَثْبُت ہے حسن ثبت نہيں۔ باقی رہی موقوف ، مقطوع اور ائمہ کے اقوال واعمال تو وہ دين ميں حجت نہيں خصوصاً جب وہ ثابت شدہ مرفوع احاديث کے ساتھ متصادم ومتعارض ہوں۔

(8) دار قطنی ہی نے اس روايت کو بيان کرنے کے بعد لکھا ہے ’’  تَفَرَّدَ بِہِ مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ وَکَانَ ضَعِيْفًا عَنْ حَمَّادِ عَنْ إِبْرَاہِيْمَ ، وَغَيْرُ حَمَّادٍ يَرْوِيْہِ عَنْ إِبْرَاہِيْمَ مُرْسَلاً عَنْ عَبْدِ اللہِ مِنْ فِعْلِہ غَيْرَ مَرْفُوْعٍ إِلَي النَّبِيِّﷺ وَہُوَ الصَّوَابُ‘‘  سائل نے اس روايت کو دار قطنی ميں ديکھ ليا تو انہيں اس کے بعد امام دار قطنی کا فيصلہ بھی ديکھ لينا چاہيے تھا اور روايت نقل کرنے کے ساتھ اس فيصلہ کو بھی نقل کرنا چاہيے تھا۔

(9) ’’اے ايمان والو اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو جب تم نماز پڑھو‘‘ قرآن مجيد کی کسی آيت يا آيت کے کسی حصہ کا ترجمہ نہيں۔ جو آيت سوال نامہ ميں درج کی گئی ہے اس کا بھی يہ ترجمہ نہيں ہے لہذا سائل کی ذمہ داری ہے کہ وہ بذات خود يا مولانا امين صاحب اوکاڑوی يا ان کے استاذ رشيد مولانا صفدر سرفراز صاحب گکھڑوی سے دريافت فرما کر قرآن مجيد کی وہ آيت لکھيں جس کا ترجمہ ہو ’’اے ايمان والو اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو جب تم نماز پڑھو ‘‘۔

(10) اس حديث ميں کوئی ايک لفظ بھی ايسا نہيں ہے جو اس کے رکوع والے رفع اليدين کے متعلق ہونے پر دلالت کرتا ہو اس ليے اس حديث سے استدلال کرنے سے پہلے اس کے رکوع والے رفع اليدين کے متعلق ہونے کو ثابت کريں آپ کی بات ’’وہ حديث جس ميں بوقت سلام اشارہ کرنے کی ممانعت ہے وہ دوسری ہے ‘‘ درست مگر اس سے يہ لازم نہيں آتا کہ پہلی حديث (جو آپ نے نقل فرمائی) رکوع والے رفع اليدين کے متعلق ہو بدائع الصنائع کے حوالہ سے جو روايت آپ نے نقل فرمائی وہ اس کی دليل نہيں بن سکتی کيونکہ وہ بلاسند ہے آپ پر لازم ہے کہ اس کی سند پيش کريں۔

پھر غور کا مقام ہے آيا وتروں کی تيسری رکعت ميں رفع اليدين بھی ’’سرکش گھوڑوں کے دم ہيں‘‘ کا مصداق ہے يا نہيں ؟ نيز وہ ’’ اُسْکُنُوْا فِي الصَّلاَۃ‘‘ کے منافی ہے يا نہيں ؟ اگر ہے تو حنفی لوگ اسے بھی چھوڑ ديں اور اگر نہيں تو رکوع والے رفع اليدين پر نکتہ چينی کيوں؟ جبکہ وتروں کی تيسری رکعت والا رفع اليدين رسول اللہﷺ سے ثابت ہی نہيں اور رکوع والا رفع اليدين رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے منسوخ بھی نہيں نہ اس حديث سے اور نہ ہی کسی اور حديث سے۔

پھر سائل نے بار بار رکوع والے رفع اليدين کو منسوخ کہا اور قرار ديا اور معلوم ہے کہ جو چيز منسوخ ہو وہ قبل از نسخ مشروع ہوتی ہے اورمشروع چيز کا مذاق نہيں اڑايا جاتا اور نہ ہی اس کو مذموم چيز کے ساتھ تشبيہ دی جاتی ہے تو اگر يہ حديث رکوع والے رفع اليدين کے ليے ناسخ ہوتی يا اس سے ممانعت کے ليے ہوتی تو اس ميں ’’ کَأَنَّہَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ ‘‘ الفاظ نہ ہوتے کيونکہ رسول اللہ ﷺ کسی مشروع چيز کے متعلق ايسے الفاظ استعمال نہيں فرما سکتے۔ اس مسئلہ پر مزيد تفصيل وتحقيق کی خاطر ميری کتاب ’’مسئلہ رفع اليدين‘‘ کا مطالعہ فرمائيں  ان شاء اللہ بہت فائدہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سعادت دارين سے ہمکنار فرمائے  آمين يا رب العالمين

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نماز کا بيان ج1ص 173

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ