السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا خاوند، اللہ اسے معاف فرمائے، اس بات کے باوجود کہ وہ اخلاق فاضلہ کا مالک اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہے مگر میرے ساتھ گھر میں خندہ پیشانی سے رہنے کا اہتمام نہیں کرتا۔ ہمیشہ چہرہ پر شکن اور دل سے تنگ رہتا ہے۔ کبھی وہ یوں کہہ دیتا ہے کہ اس کا سبب میں ہی ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ بحمد اللہ میں اس کا حق پورا کرتی ہوں اور کوشش کرتی ہوں کہ اسے راحت اور اطمینان پہنچاؤں اور ہر اس چیز سے دور رہوں جو اسے بری لگتی ہے اور اس کے تصرفات پر صبر کرتی رہوں۔
اور جب بھی میں اس سے کچھ مانگتی ہوں یا کسی معاملہ میں اس سے کلام کرتی ہوں تو وہ غصہ اور جوش میں آکر کہتا ہے کہ یہ کیسی بیہودی اور کم عقلی کی بات ہے۔ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ وہ اپنے ساتھیوں اور دوستوں سے خوش بخوش رہتا ہے… رہی میری بات تو میں نے اس سے سرزنش اور بدمعاملگی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ مجھے اس بات سے دکھ پہنچتا ہے اور بہت تکلیف ہوتی ہے اور کئی بار میں نے ارادہ کیا کہ گھر کو چھوڑ دوں۔
اور الحمد للہ کہ میری تعلیم متوسط درجہ کی ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر واجب کیا ہے، میں اسے ادا کر رہی ہوں۔
فضیلت مآب! اگر میں اپنے گھر کو چھوڑ دوں اور اپنی اولاد کی تربیت کروں اور خود اکیلی زندگی کے لیے مشقت کروں تو کیا میں گنہگار ہوں گی؟… یا میں اسی حال میں اس کے ساتھ رہوں اور اس کے کلام، مشارکت اور ایسے احساسات پر صبر کیے جاؤں؟
مجھے مستفید فرمائیے کہ میں کیا کروں؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ (ام عبداللہ۔ الریاض)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ حسن معاشرت زوجین پر واجب ہے۔ انہیں محبت بھرے چہرے، اخلاق فاضلہ، حسن خلق اور خندہ پیشانی سے ایک دوسرے سے پیش آنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ... ١٩﴾...النساء
’’اور اپنی بیویوں سے اچھا رہن سہن رکھو۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ...٢٢٨﴾...البقرة
’’اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق مردوں کا (عورتوں پر) ہے۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت ہے۔‘‘
اور نبیﷺ نے فرمایا:
((البِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ))
’’اچھا اخلاق ہی اصل نیکی ہے۔‘‘
نیز آپﷺ نے فرمایا:
((لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شیئًا: وَلو انْ تَلقَی اخَاکَ بِوَجْه طَلْقٍ))
’’کسی اچھی بات کو حقیر نہ سمجھو۔ اگرچہ وہ اتنی ہی ہو کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آؤ۔ــ
ان دونوں حدیثوں کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں نکالا ہے۔ نیز آپﷺ نے فرمایا:
((اکْمَلُ المُؤمنینَ ایْمَانًا: احسنُھم خُلُقًا، وخِیارُکُمْ: خِیارُکُم لِنِسَائِھم، وانَا خیرُکُمْ الاھلِی))
’’ایمان کے لحاظ سے مومنوں میں سے زیادہ کامل وہ ہے جس کا خلق اچھا ہو اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سے بہتر ہوں۔‘‘
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں جو عمومی حسن خلق، خوش ہو کر ملنے اور مسلمانوں میں باہمی حسن معاشرت پر دلالت کرتی ہیں اور جب یہ معاملات زوجین اور اقارب میں ہوں تو ان کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
آپ کو اپنے خاوند سے جو زیادتی اور بدخلقی کی تکلیف پہنچی، اس پر آپ نے صبر وتحمل سے کام لیا تو بہت اچھا کیا… اور میں آپ کو مزید صبر اور اس کا گھر نہ چھوڑنے کی وصیت کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس میں خیر کثیر اور قابل تعریف انجام ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿٤٦﴾...الأنفال
’’صبر کرو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴿٩٠﴾...يوسف
’’بے شک جو شخص اللہ سے ڈرے اور صبر کرے تو اللہ نیک کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴿١٠﴾...الزمر
’’جو صبر کرنے والے ہیں انہیں بغیر حساب کے اجر دیا جائے گا۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ ﴿٤٩﴾...هود
’’آپ صبر کیجئے۔ بے شک انجام پرہیزگاروں ہی کے لیے ہے۔‘‘
اور اس بات میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ آپ اپنے خاوند سے ایسے الفاظ میں مخاطب ہوں یا اس سے خوش طبعی اور ہنسی مذاق کریں جو اس کے دل کو نرم کرے اور تم پر خوش ہو جائے اور تمہارا حق پہچاننے کا سبب بنیں اور جب تک وہ اہم امور پورے کر رہا ہے اس سے دنیوی حاجات کا مطالبہ چھوڑ دیں۔ تاآنکہ اس کا دل کھل جائے اور آپ کے جائز اور معقول مطالبہ کرے لیے اس کا سینہ فراخ ہو جائے ۔ اس طرح ان شاء اللہ جلد ہی آپ انجام کی تعریف کرنے لگیں گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر بھلائی کی مزید توفیق عطا فرمائے اور آپ کے خاوند کی حالت بہتر کرے اور اس کے دل میں ہدایت پیدا کرے اور اسے حسن خلق، خندہ پیشانی اور حقوق کی نگہداشت رکھنے سے نوازے۔ وہی بہتر ہے۔ جس سے سوال کیا جاتا ہے اور وہی سیدھی راہ پر چلانے والا ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب