ایک شخص جو سو یا رہتا ہے اور نماز فجر کو ظہر سے قریباً دو گھنٹے پہلے ادا کر تا ہے اس کے با ر ے میں کیا حکم ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!عذر کے بغیر نماز کو وقت سے مؤ خر کر کے ادا کر نا جا ئز نہیں اور نیند ہر شخص کے لئے عذر نہیں بن سکتی کیو نکہ انسا ن کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ جلد ی سو ئے تا کہ نماز کے لئے جلد بیدا ر ہو سکے اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے وا لدین یا کسی بھا ئی یا پڑ وسی وغیرہ سے کہہ دے کہ وہ اسے بیدا ر کر دے علاوہ ازیں آدمی کو خو د بھی چا ہئے کہ نماز کا اس قدر خیا ل کر ے اور نماز کو دل میں اس طرح جگہ دے کہ جب وقت قر یب ہو تو دل میں خو د بخود احسا س پیدا ہو جا ئے خوا ہ آدمی سو یا ہو ا ہی کیو ں نہ ہو لہذا جو شخص ہمیشہ نماز فجر کو ضحیٰ کے وقت میں ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دل میں نماز کا ہر گز اہتمام نہیں ہے بہر حا ل انسا ن کو حکم یہ ہے کہ جہا ں تک ممکن ہو وہ نماز کو زیا دہ سے زیادہ قریب وقت میں ادا کر ے اور اگر سو یا ہو ا ہے تو اٹھ کر جلد پڑ ھ لے اسی طرح جو بھو ل گیا ہو اسے جب یا د آئے فو ر اً پڑ ھ لے ۔(شیخ ابن جبرین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
صفحہ نمبر 402
محدث فتویٰ