شافعیہ کا مذہب یہ ہے کہ نماز فجر کی دوسری رکعت میں رکوع سے سر ا ٹھا کر ہمیشہ دعائے قنوت پڑھنا مستحب ہے۔اور ان کااستدلال اس روایت سے ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح میں ہمیشہ قنوت فرماتے رہے حتیٰ کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔''
اور جب قنوت مذکور کی کوئی دعا منقول نہ تھی تو انھوں نے حدیث حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں قنوت وتر کے بارے میں مروی دعاء:
(ابو دائود ) کو استعمال کرنا شروع کردیا۔
امام احمد اور کئی دیگر آئمہ کا مذہب یہ ہے کہ نماز فجر میں قنوت مشروع نہیں ہے الا یہ کہ مسلمان کسی افتاد(مصیبت) میں مبتلا ہو۔ مثلا دشمن خوف یا کسی عام وبائی مرض کا سامنا ہو تو پھر دعائے قنوت نازلہ کی جاسکتی ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک قنوت فرمایا آپ ان قبائل عرب کے لئے بددعا کرتے تھے۔ جنہوں نے بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کو شہید کردیاتھا۔اور پھر ایک ماہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قنوت کوترک فرمادیا تھا۔( صحیح بخاری کتاب الوتر باب القنوت قبل الرکوع وبعدہ ح:1002 وصحیح مسلم کتاب المساجد باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات ح:677)ان آئمہ کرام کہنا ہے کہ جس قنوت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےہمیشہ جاری رکھا اس سے مراد طول قیام ہے۔جس کا ارشاد باری تعالیٰ:
میں زکر ہے بہرحال جو آئمہ شافعیہ کے اتباع میں قنوت کرے اس کا انکار نہیں کیا جائےگا۔لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ مشروع نہیں ہے۔او ر نہ یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشہ عمل کیا ہو۔لہذا بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ بلا سبب ہو تو مکروہ ہے۔واللہ اعلم۔(شیخ ابن جبرین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب