سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(464) نماز فجر میں قنوت کا حکم

  • 16557
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1081

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک مسلمان لڑکی ہوں۔اور یہاں سعودیہ میں تقریباً چھ سال سے رہ رہی ہوں۔ہم اپنے ملک میں نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں۔ لیکن یہاں میں نے دیکھا ہے کہ نماز فجر میں دعائے قنوت نہیں پڑھتے میرا سوال یہ ہے کہ نماز فجر میں قنوت پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شافعیہ کا مذہب یہ ہے کہ نماز فجر کی دوسری رکعت میں رکوع سے سر ا ٹھا کر ہمیشہ دعائے قنوت پڑھنا مستحب ہے۔اور ان کااستدلال اس روایت سے ہے کہ:

«مازال يقنت في الصبح حتي فارق الدنيا »(مسند احمد)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح میں ہمیشہ قنوت فرماتے رہے حتیٰ کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔''

اور جب قنوت مذکور کی کوئی دعا منقول نہ تھی تو انھوں نے حدیث حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں قنوت وتر کے بارے میں مروی دعاء:

«اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارك لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت [ ولا يعز من عاديت ] تباركت ربنا وتعاليت "»

(ابو دائود ) کو استعمال کرنا شروع کردیا۔

امام احمد اور کئی دیگر آئمہ کا مذہب یہ ہے کہ نماز فجر میں قنوت مشروع نہیں ہے الا یہ کہ مسلمان کسی افتاد(مصیبت) میں مبتلا ہو۔ مثلا دشمن خوف یا کسی عام وبائی مرض کا سامنا ہو تو پھر دعائے قنوت نازلہ کی جاسکتی ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک قنوت فرمایا آپ ان قبائل عرب کے لئے بددعا کرتے تھے۔ جنہوں نے بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کو شہید کردیاتھا۔اور پھر ایک ماہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قنوت کوترک فرمادیا تھا۔( صحیح بخاری کتاب الوتر باب القنوت قبل الرکوع وبعدہ ح:1002 وصحیح مسلم کتاب المساجد باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات ح:677)ان آئمہ کرام کہنا ہے کہ جس قنوت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےہمیشہ جاری رکھا اس سے مراد طول قیام ہے۔جس کا ارشاد باری تعالیٰ:

﴿وَقوموا لِلَّهِ قـٰنِتينَ ﴿٢٣٨﴾... سورة البقرة''اور اللہ کے آگے ادب سے کھڑے رہا کرو۔''

میں زکر ہے بہرحال جو آئمہ شافعیہ کے اتباع میں قنوت کرے اس کا انکار نہیں کیا جائےگا۔لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ مشروع نہیں ہے۔او ر نہ یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشہ عمل کیا ہو۔لہذا بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ بلا سبب ہو تو مکروہ ہے۔واللہ اعلم۔(شیخ ابن جبرین رحمۃ اللہ علیہ )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 400

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ