سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(191)کیا نبیﷺ سے مرد کا اپنی بیوی کو یہ حق دینا ثابت ہے کہ وہ اپنے آپ کو طلاق دے سکے؟

  • 16549
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 729

سوال

(191)کیا نبیﷺ سے مرد کا اپنی بیوی کو یہ حق دینا ثابت ہے کہ وہ اپنے آپ کو طلاق دے سکے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شریعت اسلامیہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طلاق مرد کے حقوق میں سے ایک حق ہے لیکن علماء کی اکثریت نے خاوند کے اپنے اس حق کو اپنی بیوی کو دے دینے میں یعنی اپنے آپ کو طلاق دینے میں اور وکیل بنانے کے مسئلہ میں کئی راہیں اختیار کیں ہیں، جیسا کہ خاوند کسی شخص کو یہ حق دے دے کہ وہ اس کی بیوی کو طلاق دے سکے۔

میرا سوال یہ ہے کہ آیا ایسا حکم نبیﷺ سے ثابت ہے؟ (سلیمان۔ م۔ طیبہ کالج۔ الریاض)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق کے لیے عورت کو یا کسی دوسرے کو وکیل بنانے کے سلسلے میں نبیﷺ سے کوئی حدیث نہیں جانتا۔ لیکن علماء نے یہ مسئلہ کتاب وسنت کے ان دلائل سے اخذ کیا ہے جو مالی حقوق اور ان سے ملتے جلتے حقوق کے لیے کسی نیک چلن آدمی کو وکیل بنانے کے سلسلہ میں ملتے ہیں اور طلاق مرد کے حقوق میں سے ایک حق ہے تو اگر وہ اپنی بیوی کو خود طلاق دینے کے معاملہ میں وکیل بنائے یا کسی دوسرے شخص کو بیوی کی طلاق میں وکیل بنائے جس میں اسے وکیل بنانے کی اسناد درست ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں جبکہ اس بارے میں شرعی قاعدہ کے مطابق عمل کیا جائے لیکن خاوند کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو تین طلاق واقع کرنے کے لیے وکیل بنائے، کیونکہ یہ بات خاوند کے اپنے لیے بھی جائز نہیں۔ لہٰذا وکیل بنانے کے لیے یہ بات بدرجہ اولیٰ جائز نہ ہوئی۔ جیسا کہ نسائی نے اسناد جید کے ساتھ محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کو ایک آدمی کے متعلق خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دی ہیں تو آپﷺ کو اس بات پر غصہ آگیا اور فرمایا:

((اَیُلْعَبُ بِکتابِ الله وانَا بین اَظْھُرِکُم)) (الحدیث)

’’کتاب اللہ سے یوں کھیلا جا رہا ہے جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔‘‘

اور صحیحین میں ابن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کسی نے ان سے طلاق سے متعلق پوچھا تو آپﷺ نے اسے یہ جواب دیا: ’’اگر تم نے تین طلاقیں دی ہیں تو تم نے اپنے پروردگار کے ایک ایسے حکم کی نافرمانی کی جو اس نے تمہاری بیوی کو طلاق کے بارے میں تمہیں دیا تھا۔‘‘

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے