السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی بھول کر یہ کہتے ہوئے قسم اٹھائی کہ ’’آئندہ سال اس پر طلاق میں یہ کچھ خریدوں گا۔‘‘ اور جب وہ نہ خریدے تو اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی… اور اگر وہ نہیں خریدتا تو اس پر کیا تاوان ہے؟ یہ خیال رہے کہ اس کو بھی طلاق کی قسم اٹھانے کی عادت نہ تھی۔ وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہے۔ (ن۔ ر۔ ن ۔ الریاض)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس طرح کے کلام میں خاوند کی نیت کے حساب سے اس کے حکم میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ اگر خاوند کا مقصد اس چیز کے خریدنے پر اپنے نفس کو ابھارنا اور ترغیب دلانا تھا اور اپنی بیوی سے جدائی کا مقصد نہ تھا۔ اگرچہ اس نے ضرورت کی وہ چیز نہ خریدی ہو جس کا اس نے طلاق میں ذکر کیا ہے۔ تو یہ طلاق اہل علم کے اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق قسم کے حکم میں ہوگی اور اس پر کفارہ لازم ہے۔ جو کہ دس مسکینوں کا کھانا ہے۔ ہر مسکین کے لیے اس علاقہ کی خوراک سے نصف صاع ہے۔ خواہ یہ کھجور ہو یا کوئی اور چیز ہو اور اس کی مقدار تقریباً کلو ہے اور اگر وہ دس مسکینوں کو رات کو کھانا کھلائے یا صبح کا کھانا کھلا دے یا انہیں اتنی پوشاک دے دے جس میں نماز ادا ہو سکتی ہو تو یہ کافی ہے۔
البتہ اگر اس کا ارادہ اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ہی تھا جبکہ اس نے وہ ضرورت کی چیز نہیں خریدی تو اس پر طلاق واقع ہو جائے گی اور اسے ایک طلاق سمجھا جائے گا جبکہ اس نے فی الواقع وہی الفاظ کہے ہوں جو سوال میں مذکور ہیں۔
مومن کو چاہیے کہ وہ ایسی مشتبہ باتوں میں طلاق کا لفظ استعمال کرنے سے پرہیز کرے۔ کیونکہ اکثر اہل علم صرف اتنی بات پر ہی طلاق واقع کر دیتے ہیں اور نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((مَنِ اتَّقَی الشُّبُھاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَا لِدِیْنِه وعِرْضِه))
’’جو شخص شبہات سے بچا رہا، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کر لیا۔‘‘
اس حدیث کی صحت پر شیخین کا اتفاق ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب