السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حرام قرار دینے کی قسم اور طلاق کا کیا حکم ہے؟ حتیٰ کہ ایسی قسم، حلف اٹھانے والے کی عادت بن جائے؟ (ن۔ ر۔ ن۔ الریاض)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی چیز کو حرام کرنے کی قسم اٹھانا جائز نہیں۔ خواہ کسی حرام کام کے متعلق کہے کہ میں یہ ضرور کروں گا۔ یا یوں کہے: مجھ پر حرام ہے اگر میں ایسا کروں، یا یوں کہے میں ایسا نہ کروں گا، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ... ١﴾...التحريم
’’اے نبی! تم وہ چیز کیوں حرام کرتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے؟‘‘
نیز اپنی بیویوں سے ظہار کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:
﴿وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا... ٢﴾...المجادلة
’’اور یہ لوگ سخت ناپسندیدہ بات اور جھوٹ کہتے ہیں۔‘‘
اور اس لیے بھی کہ نبیﷺ نے اللہ کے بغیر کسی کی قسم اٹھانے سے منع کیا اور فرمایا:
((مَنْ خَلَفَ بغیرِ الله فَقَدْ اشْرَکَ))
’’جس نے اللہ کے بغیر کسی کی قسم اٹھائی، اس نے شرک کیا۔‘‘
’’اور بلا شبہ کسی حرام چیز کے متعلق انسان کا یہ کہنا کہ میں ایسا ضرور کروں گا، اللہ کے بغیر قسم اٹھانے کی ہی ایک قسم ہے۔‘‘
رہا طلاق کا معاملہ، تو اس کے متعلق قسم اٹھانا مکروہ ہے۔ جیسے یوں کہے: ’’مجھ پر طلاق‘‘ میں ایسا ضرور کروں گا، یا اگر میں ایسا کروں تو تجھ پر طلاق ہے۔ کیونکہ ایسا کہنے سے کبھی طلاق واقع ہو بھی جاتی ہے، جو شرعی سبب کے بغیر ہو تو اللہ کے ہاں حلال چیزوں میں سب سے زیادہ قابل نفرت چیز ہے۔ اور یہ بات صرف غصہ یا کسی معاملہ میں تیزی دکھلانے کی وجہ سے ہوتی ہے اور نبیﷺ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
((ابغض الحلال الی اللہ: الطلاقُ))
’’اللہ کے ہاں حلال چیزوں میں سب سے قابل نفرت چیز طلاق ہے۔‘‘
اور اگر یوں کہے کہ طلاق ہے میں ایسا ضرور کروں گا یا ایسا نہیں کروں گا تو یہ ناپسندیدہ بات ہے جو جائز نہیں کیونکہ یہ غیر اللہ کی قسم ہے…
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب