السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
متعدد بیویوں کا کیا حکم ہے؟ کیا بیاہ میں عدل شرط ہے اگر یہ جائز ہے تو کیا شب بسری اور جماع میں مساوات کا عدل بھی اس میں شامل ہے؟
نیز اس شخص کا کیا حکم ہے جو متعدد بیویوں سے صرف تفاجر اور خوشحالی کا ارادہ رکھتا ہے۔ باوجودیکہ وہ عدل پر قدرت رکھتا ہے؟ (حمدان ۔ع۔ا)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تعدد ازواج سنت ہے جو شخص اس کی قوت رکھتا ہو اور اس سے اس کا ارادہ اپنی شرمگاہ کی عفت، نظر نیچے رکھنا، اولاد کی کثرت یا اس بنا پر امت کو جرات دلانا ہو۔ تاکہ لوگ ان چیزوں کو اختیار کر کے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے، ان چیزوں سے بے نیاز ہو جائیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اور تاکہ لوگ امت اسلامیہ کی کثرت کے اسباب اپنائیں اور زمین میں اللہ کی عبادت کرنے والوں کی کثرت ہو یا ایسے ہی دوسرے پاکیزہ مقاصد ہیں۔
اور اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول حجت ہے:
﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾...النساء
’’اور اگر تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو، تین تین یا چار چار ان نکاح کر لو اور اگر اس بات کا ڈر ہو کہ تم ان میں انصاف نہ کر سکو گے توپھر ایک ہی (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس طرح تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ...٢١﴾...الأحزاب
’’تمہارے لیے رسول اللہ کی پیروی بہترین روش ہے۔‘‘
اور نبیﷺ کی متعدد بیویاں تھیں۔ آپﷺ نے ان کے درمیان عدل کرتے اور فرماتے:
((اللّٰھمَّ ھذا قسْمِی فیما امْلِکُ فلَا تَلُمْنِی فیما تَمْلِکُ ولا امْلِکُ))
’’اے اللہ! یہ میری ان باتوں میں تقسیم ہے جن کی میں قدرت رکھتا ہوں اور جن باتوں کی قدرت تو رکھتا ہے میں نہیں رکھتا ان میں قصور وار نہ ٹھہرانا۔‘‘
اس حدیث کو اہل السنن نے صحیح اسناد کے ساتھ نکالا ہے اور نبیﷺ کی اس سے مراد یہ ہے کہ عدل ان باتوں میں واجب ہے جو انسان کے اپنے بس میں ہیں۔ جیسے خرچہ دینا اور شب بسری وغیرہ۔ رہی محبت اور جماع، تو یہ انسان کے بس میں نہیں ہے۔
اس مسئلہ میں مذکورہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر کے طور پر جو سنت صحیحہ وارد ہیں اور پر عمل کرتے ہوئے کسی مسلم کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ چار سے زیادہ بیویوں کو جمع کرے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب