السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب کوئی شخص کسی لڑکی سے منگنی کے لیے پیش رفت کرے لیکن اس لڑکی کا ولی اس لڑکی کو شادی سے محروم رکھنے کی غرض سے شادی میں دینے سے انکار کر دے تو اس بارے میں اسلام کا حکم کیا ہے؟ (خ۔ ل۔ صبیا)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اولیاء پر واجب ہے کہ وہ اپنے زیر ولایت عورتوں کی شادی میں جلدی کریں۔ اگر کفو میں ان کی منگنی ہو جائے اور وہ اس رشتہ پر راضی ہوں۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((اذا خَطَبَ الیکُم مَنْ تَرْضَوْنَ دینَه وخُلُقَه فزوِّجُوه، الاَّ تَفعَلُوا؛ تَکُنْ فتنة فى الارضِ وفسادٌ کبیرٌ))
’’جب کوئی شخص تمہیں منگنی کے لیے کہے جس کے دین اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ اور بہت بڑا فساد بپا ہو جائے گا۔‘‘
اور اگر لڑکیاں اپنے چچیرے بھائیوں یا کسی دوسرے سے نکاح پر راضی ہوں تو ان کو ان کے نکاح سے روکنا جائز نہیں۔ نہ ہی زیادہ مال کے مطالبہ یا کسی دوسری ایسی غرض سے نکاح روکنا جائز ہے جسے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے مشروع نہیں کیا۔ اور حکام اور قاضیوں پر واجب ہے کہ وہ ایسے شخص کا ہاتھ پکڑیں جو اپنے ماتحت لڑکیوں کے نکاح میں روک بنا ہوا ہو اور دوسرے رشتہ داروں کو الاقرب فالاقرب کی بنیاد پر نکاح کر دینے کی اجازت دیں تاکہ ظلم کو بھی روکا جا سکے اور عدل وانصاف کا نفاذ ہو اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اس کام میں جا پڑنے سے بچایا جا سکے۔ جسے اللہ نے ان پر حرام کیا ہے۔ جس کے اسباب ان کے اولیاء کا روک بننا اور ظلم ہے۔ ہم اللہ سے سب لوگوں کے لیے ہدایت اور نفسانی خواہشات کو حق کی خاطر قربان کر دینے کی دعا مانگتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب