السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نے فوت ہوتے وقت وصیت کی کہ اس کے ایک مکان کی آمدنی سے ہر سال حج کیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ایک سال چھوڑ کر کیا جائے اور اگر آمدنی اس سے بڑھ جائے تو وہ نیکی کے کاموں میں خرچ کی جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس حج کی وصیت کی گئی ہے کیا وہ لازماً واجب العمل ہے۔ جبکہ اس کام میں حج کے لیے نائب بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ لیکن اس پر دل مطمئن نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو صرف مادی عوض (پیسے) کے لیے حج کر رہا ہے… تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس کے عوض اتنا ہی مال بھلائی کے کموں میں خرچ کر دیا جائے۔ جیسے مسجد کی تعمیر یا ایسے ہی دوسرے کاموں میں خرچ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ (ابو احمد)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وصیت کرنے والے نے جس کام کی وصیت کی ہو، اسی کم کو عمل میں لانا واجب ہے۔ کیونکہ حج اللہ تعالیٰ کے تقرب کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اور وکیل پر لازم ہے کہ اس کام میں پوری کوشش کرے اور حج کے لیے نائب ایسے آدمی کو بنائے جو بظاہر نیک بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کے تقرب کی وجہ سے حج میں رغبت بھی رکھتا ہو، نہ کہ مال کی وجہ سے۔ اور دل کے رازوں کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی اس کا بدلہ دیتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب