سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(167)سوسائٹی میں رشوت کا اثر

  • 16522
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 851

سوال

(167)سوسائٹی میں رشوت کا اثر

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس سوسائٹی کا حال کیسا ہے جس میں رشوت عام ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں ظہور پذیر ہوں تو سوسائٹی میں افتراق کا سبب بن جاتی ہیں۔ اس سوسائٹی کے افراد کے درمیان محبت کے رشتے منقطع ہو جاتے ہیں جو بغض وعداوت اور بھلائی کے کاموںپر عدم تعاون کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جب کسی معاشرہ میں رشوت اور دوسرے گناہ پیدا ہوجائیں تو ان کے برے اثرات یہ ہوتے ہیں کہ اخلاق رذیلہ پیدا ہوتے اور فروغ پاتے ہیں۔ اچھے اخلاق ختم ہو جاتے ہیں۔ سوسائٹی کے کچھ لوگ دوسروں سے باہمی دشمنی کی بنا پر ظلم کرتے ہیں۔ وہ رشوت، چوری، خیانت، معاملات میں دھوکہ دہی، جھوٹی شہادت اور اسی طرح کے دوسرے ظلم کے کاموں اور سرکشی سے دوسروں کے حقوق دبانے لگتے ہیں۔ حالانکہ ان کاموں میں سے ہر نوع بدترین جرم ہے۔

اور یہی باتیں پروردگار کے غضب اور مسلمانوں میں بغض وعداوت کے اسباب ہیں اور انہی باتوں سے اللہ کا عذاب عام ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:

((مَا مِنْ ذَنْبٍ اجْدَرُ عندَ اللّٰه مِنْ انْ یُعَجِّلَ لصَاحِه العقوة فی الدنیا مع ما یدخره له فی الاخرة من البغی، وقطیعة الرحم))

’’اللہ تعالیٰ کے ہاں تمام گناہوں میں سے دو گناہ ایسے ہیں جو اس لائق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا ارتکاب کرنے والوں کو دنیا میں سزا دیتا ہے۔ پھر آخرت میں بھی اسے ان کی سزا دے گا اور وہ وہیں، زیادتی کرنا اور قطع رحمی کرنا۔‘‘

اور بلا شبہ رشوت اور ظلم کی تمام قسمیں زیادتی میں شامل ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور صحیحین میں رسول اللہﷺ سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا رہتا ہے پھر جب اسے پکڑتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں۔‘‘ پھر آپﷺ نے یہ آیت پڑھی:

﴿وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَىٰ وَهِيَ ظَالِمَةٌ ۚ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ ﴿١٠٢﴾...هود

’’اور تمہارا پروردگار جب نافرمان بستیوں کو پکڑا کرتا ہے تو اس کی پکڑ اسی طرح کی ہوتی ہے۔ بے شک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور سخت ہے۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے