سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(458) عذر کے بغیر نمازوں کو جمع کرنا

  • 16513
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 938

سوال

(458) عذر کے بغیر نمازوں کو جمع کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیاکسی عذر کے بغیر نمازوں کوجمع کرکے پڑھنا جائز ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عذر کے بغیر نمازوں کوجمع کرکے پڑھناجائز نہیں ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَإِذَا اطمَأنَنتُم فَأَقيمُوا الصَّلو‌ٰةَ إِنَّ الصَّلو‌ٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورة النساء

‘‘ پھر جب خوف جاتا رہے تو (اس طرح سے ) نماز پڑھو (جس طرح امن کی حالت میں پڑھتے ہو)بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ)میں اداکرنا فرض ہے۔’’

اور اس لئے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اوقات مقرر کرتے ہوئے ہر نماز کے لئے ایک مخصوص وقت کا تعین فرمایا ہے لہذا کسی شرعی عذر کے بغیر نماز میں تقدیم وتاخیر حدود الٰہی سے تجاوز ہے اور ارشادباری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٢٢٩﴾... سورة البقرة

‘‘اورجولوگ اللہ کی حدوں سےباہرنکل جائیں گے،وہ ظالم ہوں گے۔’’

نیز فرمایا:

﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ ...﴿١﴾... سورةالطلاق

''اورہ وہ لوگ جو اللہ کی حدود سے باہر نکل جایئں گے '' وہ گناہ گار ہوں گے''

لہذا آدمی کوچاہیے کہ وہ ہرنماز کو اس کے وقت پر ادا کرے لیکن جب ضرورت ہو اور وقت پر پڑھنے میں بہت دشواری ہو تو پھر جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔اس حالت میں آسانی کے مطابق ظہر اور عصر کی نمازوں کو جمع تقدیم وتاخیر دونوں صورتوں میں ادا کرنا جائز ہے۔نیز اس طرح مغرب اور عشاء کی نمازوں کو بھی آسانی کے مطابق جمع تقدیم وتاخیر کی صورت میں ادا کرنا جائز ہے۔جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے کہ:

«جمع النبي صلي الله عليه وسلم بين الظهر والعصر وبين المغرب والعشاء في المدينة من غير خوف ولا مطر» (سنن نسائی)

''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر بھی ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نمازوں کو جمع کر کے ادا فرمایا۔''

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس سلسلے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ کا اس سے ارادہ یہ تھا کہ امت کوحرج میں مبتلا نہ کریں۔یعنی ترک جمع کا حکم دے کر امت کو حرج ومشقت میں مبتلا نہ کردیں۔یہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے گویا اشارہ ہے کہ جمع کرنا صرف اسی وقت جائز ہے۔ جب جمع نہ کرنے کی صور ت میں حرج اور مشقت ہو اس حدیث کے یہی معنی ہیں۔ لہذا انسان جب کسی شرعی عذر کے بغیر دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھے گا۔تو یہ نمازیں عند اللہ مقبول اور صحیح نہ ہوں گی۔کیونکہ اس نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کے خلاف یہ عمل کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو ر د»

(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ ۔۔۔ح :1718۔وصحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب رقم :20)

‘‘جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماراامر نہیں ہے تو وہ مردود ہے’’(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 397

محدث فتویٰ

تبصرے