اس سوال کی پہلی شق کا جواب یہ ہے۔کہ انسان کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ قول وفعل سے اپنے بچوں کونماز سکھائے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے منبر بنایا گیا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرچڑھ کرنماز پڑھی اور جب سجدہ کرنے کا ارادہ کیا تو منبر سے اتر کر زمین پر سجدہ فرمایا اور پھر نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا؛
'' میں نے یہ اس لئے کیا ہے کہ تاکہ تم میری اقتداء کرو اور میری نماز سیکھ لو۔''
بچے اگر سمجھ بوجھ رکھتے اور بات کو سمجھتے ہیں۔تو انہیں وضوء کا طریقہ بھی سکھانا چاہیے لیکن سائل نے بچوں کی جو عمر زکر کی ہے۔ان میں سے بڑا تین سال کا ہے۔تو میرے خیال میں اس عمر میں وہ صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتے شاید یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حکم دیا ہے۔کہ ہم بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیں۔ جب کہ وہ سات سال کی عمر کے ہوں اور اگر دس سال کی عمر می نماز نہ پڑھیں تو ہم انہیں سزا دیں۔
سوال کی ووسری شق کہ بیوی نماز نہیں پڑھتی تو اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ شوہر پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو نماز پڑھنے کا حکم دے اور ادب سکھائے۔اور اگر وہ ترک نماز پر اصرار کرے تو وہ کافر ہوجائے گی۔والعیاذ باللہ! نکاح ٹوٹ جائے گا اور جب تک وہ نماز کو ترک کئے رکھے وہ اس ک لئے حلال نہ ہوگی کہ مہاجر خواتین کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اگر تم کو معلوم ہے کہ مومن ہیں تو ان کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کہ نہ یہ ان کو حلال ہیں۔اور نہ وہ ان کو جائز۔''
مسلمان کے لئے یہ حلال نہیں ہے۔ کہ وہ کسی کافر اور اسلام سے مرتد عورت سے شادی کرے اور اگریہ ارتداد نکاح کے بعد پیدا ہوا ہو تو اس سے نکاح ٹوٹ جائے گا۔عدت ختم ہونے سے قبل اگر یہ اسلام کی طرف پلٹ آئے تو یہ اس کی بیوی ہوگی وگرنہ یہ بائنہ ہوجائے گی۔(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ )ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب