سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(437) نماز میں ایسے باریک کپڑے پہننے کا حکم جن سے ستر پوشی نہ ہوتی ہو

  • 16482
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1124

سوال

(437) نماز میں ایسے باریک کپڑے پہننے کا حکم جن سے ستر پوشی نہ ہوتی ہو
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل باریک کپڑے کثرت سے پہنے جاتے ہیں۔ اور ان کا عام مسلمانوں میں بہت رواج ہوگیا ہے۔ خصوصاً ہم دیکھتے ہیں کہ موسم گرما میں تو اکثر نمازیوں نے یہ باریک کپڑے پہنے ہوتے ہیں اور وہ نیچے نصف ران یا ثلث ران تک انڈر ویئر پہن لیتے ہیں۔اور بعض لوگ نیچے بنیان وغیرہ بھی پہنتے ہیں۔لیکن اس سے زیر ناف حصہ باریک کپڑے سےنظر آتا ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ستر پوشی تو نماز کی شرطوں میں سے ایک اہم شرط ہے۔تو کیا اس طرح کے باریک کپڑے پہننے سے ستر پوشی ہوجاتی ہے؟ براہ کرام راہنمائی فرمایئے اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی برکتوں سے نوازے ۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نمازی کے لئے نماز میں ستر پوشی واجب ہے۔اور اس کے لئے عریاں طور پر نماز پڑھنا جائز نہیں خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہاں البتہ عورت کے لئے ستر پوشی کا حکم زیادہ تاکید اور کثرت کے ساتھ آیا ہے۔آدمی کا ستر ناف سے لے کر گھنٹے تک ہے۔اور حسب مقدور دونوں یا ایک کندھے کو ڈھانپنا بھی ضروری ہے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ فرمایاتھا کہ:

«ان كان الثوب واسعا فالتحف به وان كان ضيقا فاتزر به »(صخيح بخاري)

''اگر کپڑا کشادہ ہو تو اسے لپیٹ لو اور اگر تنگ ہو تو اسے چادر کے طور پراستعمال کرو''

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:

«لا يصل احدكم في الثوب الواحد ليس علي عاتقيه منه شيئ »(صحيح منسلم)

''تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر کوئی چیزنہ ہو۔''

نماز میں چہرے کے سوا عورت کا سارا جسم ہی پرد ہ ہے۔عورتوں کے ہاتھوں کے بارے میں علماء اختلاف ہے۔بعض نے تو ہاتھوں کے ڈھانپنے کو بھی واجب قرار دیا ہے۔اور بعض نے ان کے ننگا رکھنے کی رخصت دی ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ان شاء اللہ دونوں طرح گنجائش ہے۔ہاں البتہ ڈھانپ لیا جائے۔تو زیادہ اٖفضل ہے۔اور پھر اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔جمہور اہل علم کے نزدیک عورت کے لئے نماز میں پاؤں کو چھپانا بھی واجب ہے۔

امام ابودائود رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ روایت بیان کی ہے۔کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ کیا عورت چادر کے بغیر محض قمیض اور دوپٹے میں بھی نماز پڑھ سکتی ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اذ ا كان الدرع سابغا يغطي ظهور قدميها »(سنن ابي دائود)

''ہاں جب قمیص اس قدر کشادہ ہو کہ اس سے پاؤں کے ا وپر چھپ جائے۔''

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ''بلوغ المرام'' میں لکھا ہے۔کہ آئمہ کرام نے اس حدیث کے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے موقوف ہونے کو صحیح قرار دیا ہے۔

ان دلائل سے معلوم ہوا کہ واجب ہے کہ نماز میں مرد اور عورت کا لباس ایسا ہو جو ستر پوشی کے تقاضوں کوپورا کرتا ہو۔اور اگر لباس باریک ہوکہ اس سے ستر پوشی نہ ہورہی ہو تو نماز باطل ہوجائےگی۔ مثلاً یہ کہ مرد نے اگر چھوٹی نیکر پہنی ہو کہ اس سے اس کے ران غیر مستور (ننگے ) ہوں اورنیکر کے اوپر کوئی اور کپڑا نہ پہنے کہ جس سے ران چھپ جایئں تو اس حال میں اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔اس طرح اگر عورت اس قدر باریک لباس پہنے جو ستر پوشی کا کام نہ دے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔نماز اسلام کا ستون ہے۔اور شہادتین کے بعد اسلام کا سب سے عظیم رکن ہے۔لہذا تمام مسلمان مردوں اور عورتوں پر یہ واجب ہے۔کہ وہ نماز کا خاص اہتمام کریں نماز کو اس کی مکمل شرائط کے ساتھ ادا کریں اور ایسے امور سے اجتناب کریں جو نماز کو باطل کردینے والے ہوں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿حـٰفِظوا عَلَى الصَّلَو‌ٰتِ وَالصَّلو‌ٰةِ الوُسطىٰ ...﴿٢٣٨﴾... سورة البقرة

''(مسلما نو ) سب نما زیں خصو صاً بیچ کی نما ز (یعنی نماز عصر ) پو ر ے التزام کے سا تھ ادا کر تے رہو ۔''

نیز فرمایا:

﴿وَأَقيمُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتُوا الزَّكو‌ٰةَ... ﴿٤٣﴾... سورة البقرة

''اور نماز پڑھا کرو اور زکواۃ ادا کیا کرو''

بے شک نماز کا خاص اہتمام کرنا اور نماز کے شرائط اور تمام واجبات کو ادا کرنا بھی نماز کی اس حفاظت اور اقامت میں شامل ہے۔جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے ۔اگر نماز پڑھتے ہوئے عورت کے پاس کوئی اجنبی شخص ہو تو پھر اس کے لئے چہرے کو چھپانا بھی فرض ہے۔اسی طرح طواف میں بھی عورت کے لئے سارے جسم کوچھپانا فرض ہے کیونکہ طواف بھی نماز کے حکم میں ہے۔وباللہ التوفیق (شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 386

محدث فتویٰ

تبصرے