السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بیع میں اگر نقد کی نسبت ادھار یا قسطوں پر قیمت زیادہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ (احمد۔م۔ا)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
معلوم مدت والی بیع جائز ہے جبکہ اس بیع میں معتبر شرائط پائی جاتی ہوں۔ اسی طرح قیمت کی قسطیں کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جبکہ یہ اقساط معروف اور مدت معلوم ہو۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ...٢٨٢﴾...البقرة
’’اے ایمان والو! جب تم ایک مقررہ مدت کے ادھار پر لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔‘‘
نیز رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَسْلَفَ فِی شَیْئٍ فَفِی کَیْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَی أَجَلٍ مَعْلُومٍ))
’’جب کوئی شخص کسی چیز میں بیع سلم کرے تو ناپ تول اور مدت معین کر کے کرے۔‘‘
اور بریرہ رضی اللہ عنہ سے متعلق جو صحیحین میں ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو اپنے مالکوں سے نو اوقیہ میں خرید لیا کہ ہر سال ایک اوقیہ (چاندی) ادا کی جائے گی اور یہی قسطوں والی بیع ہے اور نبیﷺ نے اس بیع کو معیوب نہیں سمجھا بلکہ خاموش رہے اور اس سے منع نہیں کیا اور اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ قسطوں میں قیمت نقد کے برابر ہو یا مدت کی وجہ سے زیادہ ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب