السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دونوں طرف ادھار والی بیع کا کیا حکم ہے جو فروختنی اشیئاء کی خرید و فروخت کی طرح کی جاتی ہے اور وہ چیزیں اپنی جگہ پڑی رہتی ہیں اور یہ طریقہ ایسا ہے جو موجودہ دور میں بعض لوگوں کے ادھار لین دین میں رواج پا چکا ہے۔ (ساری ۔غ۔ ا۔ القصیم)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ایسی چیز کا سودا کرے جس کا وہ ملک نہ ہو اور اس پر قابض نہ ہو چکا ہو۔ چنانچہ نبیﷺ نے حکیم بن حزام سے فرمایا:
((لا تَبِعْ ما لیسَ عِنْدَکَ))
’’جو چیز تمہارے پاس موجود نہ ہو اس کا سودا مت کرو۔‘‘
اور عبداللہ بن عمرو بن عاص کی حدیث میں ہے، کہ آپﷺ نے فرمایا:
((لا یَحِلُّ سَلَفٌ و بَیْعٌ ولا بَیْعُ ما لیسَ عِنْدَکَ))
’’ادھار بیع کی شرط پر جائز نہیں اور نہ ہی اس چیز کی بیع جائز ہے جو تمہارے پاس موجود نہ ہو۔‘‘
اس حدیث کو پانچویں محدثین نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا۔ اسی طرح مذکورہ دونوں حدیثوں کی رو سے یہ بھی جائز نہیں کہ کوئی شخص کوئی چیز خرید کر جب تک اس پر قبضہ نہ کر لے، وہ اس کی بیع نہیں کر سکتا۔
نیز وہ حدیث جسے امام احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا اور اسے ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا کہ زید بن ثابتb فرماتے ہیں:
((نَھَی رَسولُ الله انْ تُباعُ السِّلَعُ حیثُ تُبْتاعُ، حتّی یَحُوزَھا التُّجَّارُ إلی رِحَالِھم))
’’رسول اللہﷺ نے اسی جگہ فروختنی اشیاء کو فروخت کرنے سے منع فرمایا جہاں وہ خریدی گئیں تاآنکہ تاجر لوگ انہیں اپنے ٹھکانوں پر منتقل نہ کرلیں۔‘‘
نیز اس روایت کی رو سے بھی جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن عمر سے روایت کیا۔ وہ کہتے ہیں:
((لَقَدْ رَأَیْتُ النَّاسَ فِی عَهد رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ یَبْتَاعُونَ جِزَافًا یَعْنِی الطَّعَامَ یُضْرَبُونَ أَنْ یَبِیعُوه فِی مَکَانِهم حَتَّی یُؤْوُوه إِلَی رِحَالِهم))
’’میں نے رسول اللہﷺ کے زمانہ میں لوگوں کو دیکھا کہ وہ غلہ کے ڈھیر کا سودا کر لیتے اور اسی جگہ بیچ دینے پر انہیں مار پڑتی تھی۔ تاآنکہ وہ اس ڈھیر کو اپنے ٹھکانوں تک نہ لے جائیں۔‘‘
اور اس معنی میں بہت سی احادیث ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب