سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(424) نماز میں کثرت حرکات

  • 16464
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 865

سوال

(424) نماز میں کثرت حرکات
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں مسجد میں بعض بھا ئیوں کو دیکھتا ہو ں کہ وہ نما ز پڑھتے ہوئے بڑی کثر ت کے سا تھ حر کت کر تے ہیں یا اپنا ایک قدم امام کی طرف آگے بڑھا دیتے ہیں گو یا وہ نماز میں نہیں بلکہ سڑک پر کھڑے ہو ں کیا اس سے نما ز با طل ہو جا ئے گی؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز میں حر کت کے با ر ے میں اصول یہ ہے کہ یہ ضرورت ہو تو مکرو ہ ہے تا ہم حر کت کی پا نچ قسمیں ہیں (1) حرکت واجب (2) حرکت حرا م(3) حرکت مکروہ (4)حرکت مستحب اور (5)حرکت مباح۔حرکت وا جب وہ ہے جس پر صحت نماز مو قو ف ہے مثلاًیہ کہ اپنے روما ل میں کو ئی گندگی دیکھے تو واجب ہے کہ اس کے ازالہ کے لئے حرکت کر ے اور روا ما ل اتا ر دے اس کی دلیل یہ ہے کہ :

«لان النبي صلي الله عليه وسلم اتاه جبرئيل وهو يصلي بالناس فاخبره ان في نعليه ازي فخلعهما صلي الله عليه وسلم وهو في صلاته واستمر فيها»(سنن ابی داؤد)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ کے پا س جبر یل علیہ السلام آئے انہو ں نے بتایا کے آپ کے جو تو ں میں گندگی ہے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حا لت نماز ہی میں انہیں اتا ر دیا اور نماز کو جا ری رکھا ۔"

 یا مثلًا یہ کہ کو ئی شخص اسے بتائے کہ وہ قبلہ رخ  نہیں ہے تو اس کےلئے ضروری ہے کہ حر کت کر کے قبلہ رخ ہو جا ئے حرکت حرا م سے مرا د وہ حر کت ہے جو بلا ضرورت کثر ت کے سا تھ مسلسل حر کت کی جا ئے کہ اس سے نماز با طل ہو جا تی ہے اور جس سے نما ز با طل ہو جائے وہ فعل حلا ل نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آیا ت سے مذا ق کر نے لے مترا وف ہے حر کت مستحب وہ ہے جو نماز میں کسی امر مستحب کے لئے کی جا ئے مثلاً صف سیدھی کر نے کےلئے حر کت کر ے یا اپنے سامنے کی صف میں خا لی جگہ دیکھے تو حا لت نماز ہی میں آگے بڑ ھ کر اس خالی جگہ  میں کھڑا ہو جا ئے یا صف سمٹ رہی ہو اور  اس کی تکمیل کے لئے حر کت  کی جا ئے یا اس طرح کی کو ئی اور حر کت جو  فعل مستحب کے لئے  کی جا ئے تو یہ بھی مستحب  ہو گی کیونکہ یہ حر کت تکمیل نماز کےلئے  ہے اس کی  دلیل یہ ہے کہ :

«لما صلي ابن عباس رضي الله عنه مع النبي صلي الله عليه وسلم فقام عن يساره اخذ رسول الله صلي الله عليه وسلم براسه من ورائه فجعله عن يمينه»(صحیح بخا ر ی )

"حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب را ت کو نما ز پڑھنے کے لئے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے با ئیں جا نب کھڑے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو ان کے سر کے پیچھے کے حصہ کی طرف سے پکڑا اور اپنے دائیں طرف کھڑا کر لیا حرکت مبا ح وہ ہے جو کسی ضرورت کی وجہ سے تھو ڑی سی یا ضرورت کے لئے زیا دہ حرکت کی جا ئے حا جت کے لئے تھو ڑ ی سی حرکت کی مثا ل نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا اپنی نوا سی امامہ بنت زینب کو اٹھا کر نماز پڑھانا اور سجدہ کر تے ہو ئے اتا ر دینا ہے بوقت ضرورت حرکت کثیر ہ کی مثال حسب  ذیل ارشا د  با ر ی تعا لیٰ ہے :

﴿حـٰفِظوا عَلَى الصَّلَو‌ٰتِ وَالصَّلو‌ٰةِ الوُسطىٰ وَقوموا لِلَّهِ قـٰنِتينَ ﴿٢٣٨ فَإِن خِفتُم فَرِجالًا أَو رُكبانًا فَإِذا أَمِنتُم فَاذكُرُوا اللَّهَ كَما عَلَّمَكُم ما لَم تَكونوا تَعلَمونَ ﴿٢٣٩﴾... سورة البقرة

''(مسلما نو ) سب نما زیں خصو صاً بیچ کی نما ز (یعنی نماز عصر ) پو ر ے التزام کے سا تھ ادا کر تے رہو اور اللہ کے آگے ادب سے کھڑے رہا کرو اگر تم خو ف کی حا لت میں ہو تو پیا دے یا سوار (جس حا ل میں نماز پڑھ لو) پھر جب امن (و اطمینان ) ہو جا ئے تو جس طر یق سے اللہ نے تم کو سکھا یا ہے جو تم پہلے نہیں جا نتے تھے اللہ کو یا د کر و ۔''

 جو شخص نماز پڑھ رہا اور چل رہا ہے تو بے شک یہ عمل کثیر ہے لیکن چو نکہ یہ ضرورت کے لئے ہے اس لئے مبا ح ہے اور اس سے نماز با طل نہ ہو گی حر کت مکرو ہ وہ ہے جو ان مذکو رہ با لا قسموں کے علا وہ ہو اور حر کت کے سلسلہ میں اصو ل یہ ہے جس کی تفصیل مذکو رہ با لا سطور میں بیا ن کر دی گئی ہے لہذا اس اصول کی بنیا د پر ہم ان لو گو ں سے کہیں گے جنہیں ہمارے ان سا ئل بھا ئی نے نماز میں حر کت کر تے ہو ئے دیکھا ہے  کہ لو گو ! تمہا را یہ عمل مکروہ ہے تمہا ر ی نما ز کو نا قص کر نے والا ہے ہم میں سے ہر شخص آج نماز پڑھنے وا لو ں کو دیکھتا ہے کہ ان میں سے کو ئی اپنی گھڑی کوئی اپنے قلم کو ئی اپنے جو تے کو ئی نا ک کو ئی داڑھی اور کو ئی کسی چیز کے سا تھ کھیل رہا ہو تا ہے یہ سب حر کت مکرو ہ کی قسمیں ہیں اور اگر یہ حر کت کثرت کے سا تھ اور تسلسل کے س اتھ ہو تو پھر  یہ حرکت حرام ہو گی اور اس سے نماز با طل ہو جا ئے گی اس طرح نماز پڑھتے ہوئے ایک پا ؤ ں کو دوسرے کہ آگے بڑھا نا بھی جا ئز نہیں ہے بلکہ سنت یہ ہے کہ دو نو ں پا ؤ ں برا بر ہو ں بلکہ تمام نماز یو ں کے پا ؤں برا بر اور مسا وی ہو ں کیو نکہ صفوں کی برا بری امر واجب ہے جس کے بغیر چا رہ ہی نہیں اگر لو گ صفو ں کو برا بر نہ کر یں گے تو گناہ گا ر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نا فر ما ن ہو ں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  صحا بہ کر ام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صفوں کو درست فر ما تے اور ان کے سینوں اور کندوں کو ہا تھ لگا کر درست فرماتے تھے نیز فر ما تے تھے آپس میں اختلا ف نہ کر و ورنہ تمہارے دل مختلف ہو جا ئیں گے اور اس مسئلہ کو سمجھ لینے کے بعد ایک دن آپ نے ایک شخص کو دیکھا جس کا سینہ صف سے آگے بڑھا ہو ا تھا تو آپ نے فرمایا :

«عبادالله لتسون بين صفوفكم او ليخالفن الله بين وجوهكم»(صحیح بخا ر ی)

" اے اللہ کے بندو! تم ضرو اپنی صفوں کو سیدھا رکھو گے یا اللہ تعا لیٰ تمہا ر ے چہرو کو مختلف کر دے گا ۔''

 اہم با ت یہ ہے کہ صفوں کی برابری ضروری ہے اور امام اور مقتدیوں کی ذمہ داری بھی ہے امام کو چاہئے کہ وہ صفوں کا جا ئز ہ لے اور انہیں سیدھا کر ے مقتد یو ں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی صفوں کو سیدھا رکھیں اور خو ب مل جل کر کھڑے ہو ں ۔(شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 379

محدث فتویٰ

تبصرے