السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حائضہ عورت احرام کی دو رکعت کیسے ادا کرے؟ اور کیا ایسی عورت کے لیے دل میں قرآن کریم کی آیات پڑھنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(الف) حائضہ احرام کی دو رکعت ادا نہ کرے بلکہ ان رکعتوں کے بغیر ہی احرام باندھ لے۔ احرام کی رکعتیں جمہور کے نزدیک سنت ہیں۔ بعض اہل علم انہیں مستحب نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے بارے میں کوئی مخصوص روایت نہیں اور جمہور انہیں مستحب سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ بعض احادیث میں آیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
((أتانی آتٍ مِن رَّبِّى، فقالَ: صلِّ فى ھذ الوادى المُبارکِ، وقُلْ عمرة فى حجة))
’’میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور کہا، اس مبارک وادی میں نماز ادا کرو اور کہو عمرہ حج کے اندر ہے۔‘‘
یعنی آنے والا حجۃ الوداع کے موقع پر وادی عقیق میں آیا تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ آپﷺ نے نماز ادا کی پھر احرام باندھا۔ لہٰذا جمہور اس بات کو مستحب سمجھتے ہیں کہ نماز کے بعد احرام باندھا جائے خواہ یہ نماز فرضی ہو یا نفلی ہو۔ وہ وضو کرے اور دو رکعت نمازادا کرے۔ اور حیض ونفاس والی عورتیں نماز ادا کرنے والوں سے نہیں۔ وہ نماز ادا کیے بغیر ہی احرام باندھ لیں اور ان دو رکعتوں کی قضاء بھی مشروع نہیں۔
(ب)صحیح قول کے مطابق حائضہ عورت کو قرآن کو لفظاً ادا کرنا جائز ہے اور دل میں اسے دہرانا تو سب کے نزدیک ہی جائز ہے۔ اگر اختلاف ہے تو صرف اس بات میں کہ آیا وہ زبان سے ادا کر سکتی ہے یا نہیں؟ بعض اہل علما سے حرام سمجھتے ہیں اور ان باتوں کو حیض ونفاس والی عورتوں کے لیے حرام قرار دیا ہے کہ وہ قرآن کی قراء ت کریں یا قرآن کو چھوئیں۔ نہ وہ دل میں پڑھ سکتی ہیں اور نہ قرآن سے تاآنکہ وہ غسل کر لیں۔ اور بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ ایسی عورتوں کے لیے دل میں قرآن پڑھنا جائز ہے، قرآن سے پڑھنا جائز نہیں۔ کیونکہ ان کی مدت لمبی ہوتی ہے اور اس لیے بھی کہ اس کے متعلق کوئی صریح حکم وارد نہیں، جس میں اس کی ممانعت ہو، بخلاف جنبی کے کہ اس کے لیے سبب کچھ ممنوع ہے تاآنکہ وہ غسل نہ کر لے اور غسل پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تیمم نہ کر لے۔ دلیل کے لحاظ سے یہی بات راجح تر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب