السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے ایک بھائی نے مجھے زکوٰۃ کا مال دیا اور کہا کہ میں یہ مال سوڈان کے لوگوں کو پہنچا دوں، بشرطیکہ وہ کتاب وسنت کے قولاً اور عملاً پابند ہوں۔ ان کا میرے ساتھ کوئی قریبی رشتہ نہ ہو اور یہ کہ وہ محتاج اور زکوٰۃ کے مستحق ہوں۔
اور میرے ہاں ایسے لوگ ہیں جو قریبی اور جانے پہچانے ہیں۔ لیکن ان میں یہ تمام شرطیں پوری نہیں پائی جاتیں اور رقم بدستور میرے قبضہ میں ہے… مجھے مطلع فرمائیے کہ میں اس کا کیا کروں؟ کیا اسے دینے والے کو واپس لوٹا دوں یا جن لو گوں کو میں مستحق دیکھوں، ان میں بانٹ دوں، خواہ یہ شرائط پوری نہ ہوسکیں۔‘‘(محمد۔ ا۔ ع۔ عنیزہ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس شخص نے آپ کو وکیل بنایا ہے، آپ کو چاہیے کہ اسی کی ہدایت کے مطابق زکوٰۃ کا مال ان لوگوں کو ادا کریں اور اگر ان میں وہ صفات پوری طرح نہ پائی جائیں، تو مال موکل کو واپس کردیجئے۔ تاکہ جسے وہ مستحق سمجھے خود اس پر صرف کرے۔ جس مصرف میں صاحب مال نے وصیت کی ہے اس کے علاوہ آپ اسے دوسرے مصرف میں نہیں لا سکتے۔ کیونکہ وکیل اس شرط کا پابند ہوتا ہے، جو موکل نے لگائی ہو۔ بشرطیکہ وہ شرط شریعت مطہرہ کے موافق ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب