السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا اس سونے میں زکوٰۃ واجب ہے، جسے کوئی عورت محض زینت اور استعمال کے لیے رکھتی ہے اور وہ تجارت کے لیے نہ ہو؟ (بشیر۔ ع۔ الخرج)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورتوں کے زیور کی زکوٰۃ میں، جبکہ وہ حد نصاب کو پہنچ جائے اور تجارت کے لیے نہ ہو، اہل علم کے درمیان اختلاف ہے… اور صحیح بات یہ ہے کہ جب وہ حد نصاب کو پہنچ جائے تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے خواہ یہ محض پہننے اور زینت کے لیے ہو۔
سونے کا نصاب بیس مثقال ہے اور اس کی مقدار ۷/۱۱۳ گنی سعودی ہے۔ اگر زیور اس سے کم مقدار میں ہو تو اس میں زکوٰۃ نہیں۔ الایہ کہ وہ تجارت کے لیے ہو۔ اس صورت میں اس میں زکوٰۃ مطلق ہوگی۔ یعنی جب اس کی قیمت سونے یا چاندی کے نصاب کے برابر ہو جائے۔ چاندی کا نصاب ۱۴۰ مثقال ہے اور درہموں سے اس کی مقدار ۵۶ریال ہے۔ اگر چاندی کا زیور اس سے کم مقدار میں ہو تو اس میں زکوٰۃ نہیں۔ الا یہ کہ وہ تجارت کے لیے ہو۔ اس صورت میں اس میں زکوٰۃ مطلق ہوگی یعنی جب اس کی قیمت سونے یا چاندی کے نصاب کے برابر ہو جائے۔
سونے اور چاندی کے زیور جو پہننے کے لیے تیار کیے گئے ہوں ان میں زکوٰۃ کے واجب ہونے کی دلیل نبیﷺ کے اقوال کا عموم ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
((مَا مِنْ صَاحِبِ ذهب وَّلَا فِضَّة لَا یُؤَدِّی زکاتھا إِلَّا إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَة صُفِّحَتْ لَه صَفَائِحُ مِنْ نَّارٍ فَیُکْوٰی بِها جَنْبُه وَجَبِینُه وَظَهره)) (الحدیث)
’’جس شخص کے پاس بھی سونا اور چاندی ہو اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اس کے لیے آگ کی بڑی بڑی تختیاں تیار کی جائیں گی۔ جن سے اس کے پہلو، اس کے ماتھے اور اس کی پشت کو داغا جائے گا۔‘‘
اور عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث یوں ہے:
((أن امراة دخلت علی النبی صلی اللہ علیه وسلم وفی ید ابنتھا مسکتان من ذھب، فقال: ((اتعطین زکاة ھذا)) قالت: لا قال ((ایسرک ان یسورک اللہ بھما یوم القیامة سوارین من نار؟)) … فالقتھما، وقالت: ھما للہ ولرسوله))
’’ایک عورت نبیﷺ کے پاس آئی۔ اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو کڑے تھے۔ آپﷺ نے اس سے پوچھا: ’’کیا ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟‘‘ وہ کہنے لگے۔ نہیں! آپﷺ نے فرمایا ’’کیا تجھے یہ پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے عوض قیامت کے دن دو آگ کے کنگن پہنائے؟‘‘ … اس عورت نے وہ دونوں کڑے آپ کے آگے ڈال دیئے اور کہا یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو ابو داؤد اور نسائی نے اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا۔
اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ انہوں نے سونے کے پازیب پہنے ہوئے تھے۔ وہ کہنے لگیں:
((یا رسُولَ اللّٰه! اکَنْزٌ ھُوَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰه مَا بَلَغَ أنْ یُزَکَّی فَزُکَّیَ فلیسَ بکَنْزٍ))
’’اے اللہ کے رسولﷺ! کیا یہ کنز (خزانہ) کے حکم میں ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا: اگر یہ زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوٰۃ ادا کرو۔ پھر یہ کنز کے حکم میں نہ رہیں گے۔‘‘
اس حدیث کو ابوداؤد اور دارقطنی نے روایت کیا اور حاکم نے صحیح کہا ہے، آپﷺ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ نہیں کہا کہ زیور میں زکوٰۃ نہیں ہوتی۔
اور جو نبیﷺ سے روایت کی جاتی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’زیور میں زکوٰۃ نہیں‘‘ تو یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کا اصل سے یا احادیث صحیحہ سے معارضہ کرنا جائز نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب