مسلمان کے لئے مستحب یہ ہے کہ جب مؤذن کوسنے تو اسی طرح کہےجس طرح مؤذن کہتا ہے لیکن حیعلتین «حی علی الصلواة » اور « حی علی الفلاح» کے جواب میں اسی طرح نہیں کہنا چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ:
''جب تم مؤذن کو سنو تو اس طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے۔''
اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ :نبی کرکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اذان کو سنا تو اسی طرح کہا جس طرح مؤذن نے کہا تھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے«حی علی الصلواة»اور «حی علی الفلاح» کے کلمات سنے تو فرمایا:«لاحول ولا قوة الا بالله» پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جوشخص دل سے یہ کہے وہ جنت میں داخل ہوجائے گا''
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
''جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو'جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلے کا سوال کرو۔ وسیلہ جنت میں ایک (ایسا بلند وبالا اور ارفع واعلیٰ) مقام ہے۔جس پر بندگان الٰہی میں سے صرف ایک انسان ہی فائز ہوگا۔اور امید ہے کہ یہ شرف مجھے حاصل ہوگا۔جس شخص نے میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ کی دعا ء کی اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوجائےگی۔''
اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جو شخص اذان سن کر یہ کہے «اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة »اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔''
(ترجمہ دعا۔''اے اللہ ! اس دعوت کامل اور کھڑی ہونے والی نماز کے مالک تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرمادے۔اور ان کو اس مقام محمود پر پہنچا دے جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔'')
بیہقی میں حضرت جابر کی بسند جید روایت میں «الذی وعدته» کے بعد:
مستحب یہ ہے کہ اقامت کا ابھی اسی طرح جواب دیاجائے جس طرح اذان کاجواب دیا جاتا ہے۔اور«قد قامت الصلاة» کے جواب میں « قد قامت الصلواة» ہی کہنا چاہیے جس طرح مؤذن کے قول« الصلواة خیر من النوم» کے جواب میں « الصلواة خیر من النوم» ہی کہنا چاہیے کیونکہ اس سلسلے میں مذکورہ احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔حدیث میں جو « قد قامت الصلواة» کے جواب میں