ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اوراپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اورتمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔’’
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:
''میری اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرو۔اوراسے مضبوطی سے تھام لو اور اپنے آپ کو (دین میں) نئے نئے کاموں سے بچائو کیونکہ (دین میں)ہرنیاکام بدعت ہے۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے۔''
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
(صحيح بخاری کتاب الصلح باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود :2697) صحیح مسلم کتاب الاقضیہ باب نقض الاحکام الباطلۃ۔۔۔ح:1718)
‘‘جس نے ہمارے اس امر(دین)میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہ ہو تو وہ مردود ہے’’
بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ اتباع کرو اور بدعت ایجاد نہ کرو کیونکہ تمہارے لئے کتاب وسنت کافی ہے۔ لہذا مسلمان کو چاہیے کہ امور عبادت میں صرف اسی پر اکتفاء کرےجس کی مشروعیت ثابت ہو اور اس پر کسی قسم کا اضافہ نہ کرے کیونکہ یہ زائد چیز اگر مستحسن ہوتی تو اس کا شریعت میں ضرور حکم دیا جاتا۔اگر یہ بات بہتر ہوتی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں ضرور بتاتے اور اس پر خود بھی عمل کرتے اور حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین بھی اس پر عمل پیرا ہوتے اس تفصیل سے مذکورہ سوال کاجواب خود بخود واضح ہوگیا کہ اذان کے بارے میں صرف اسی پر اکتفا کرنا چاہیے جو اذان کے بارے میں شرعی طور پر ثابت ہے۔اوراس پر جو بھی اضافہ ہوگا اور بدعت قبیل سے ہوگا ۔واللہ اعلم (فتویٰ کمیٹی)