سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(324) کس قسم کے موزہ پر مسح جائز ہے؟

  • 16274
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1071

سوال

(324) کس قسم کے موزہ پر مسح جائز ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا موزوں پرمسح کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ مخصوص قسم کے ہوں یا ہر قسم کے موزوں پر مسح کرنا جائز ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسے ہر قسم کے موزوں پر مسح کرناجائز ہے۔جو پاؤں اور ٹخنوں کو چھپائے ہوے ہوں۔ پاک ہوں ۔پاک جانور مثلا اونٹ گائے اور بکری وغیرہ کی کھال سے بنے ہوئے ہوں۔انہیں بحالت وضو پہنا ہو اسی طرح جرابوں پر بھی مسح جائز ہے۔جس طرح موزوں پر جائز ہے۔ اور علماء کے دو قولوں میں سے زیادہ صحیح یہی قول ہے۔ یاد رہے جرابیں وہ ہیں جنھیں روئی یا اون وغیرہ سے بنایا جاتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جرابوں اور نعلین پر مسح فرمایا ۔حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی جماعت سے یہ ثابت ہے اور پھر حصول سہولت میں جرابیں موزوں ہی کی مانند ہیںَ مدت مسح کے سلسلہ میں یاد رہے کہ یہ مسافر کے لئے تین دن رات اور مقیم کے لئے ایک دن رات ہے۔ اور علماء کے صحیح قول کے مطابق مدت کا آغاز بے وضو ہونے کے بعد پہلے مسح سے ہوگا جیسا کہ اس سلسلہ میں وارد صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے۔مسح طہارت صغریٰ میں کیا جاتا ہے۔اور اگر طہارت کبریٰ در پیش ہو تو پھر مسح کی اجازت نہیں بلکہ موزوں کو اتار کر پاؤ ں کو دھونا فرض ہوگاکیونکہ صفوان بن عسال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:

«امرنا رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا كنا سفرا الا ننزع خفافنا ثلاثة ايام وليا ليهن الا من جنابة ولكن من غائط وبول ونوم »(سنن ترمذي)

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جب مسافر ہوں تو تین دن اور رات موزے نہ اتاریں ہاں البتہ حالت جنابت میں نہیں اُتارنا ہوگا۔ بول وبراز اور نیند کی وجہ سے انہیں اُتارنے کی ضرورت نہیں ہے۔''

طہارت کبُریٰ سے مُراد وہ طہارت ہے جو جنابت حیض نفاس کے بعد حاصل کی جاتی ہے اور حدث اصغر یعنی بول وبراز اور خروج ریح جیسے نواقض وضوء کی صورت میں جو طہارت حاصل کی جاتی ہے اسے طہارت صغریٰ کہتے ہیں۔واللہ ولی التوفیق! (شیخ ابن بازؒ)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 314

محدث فتویٰ

تبصرے