اس سوال کے جواب سے پہلے میں چاہتا ہوں۔کہ یہ بیان کردں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کتاب مبین میں یہ بیان فرمایا ہے کہ :
‘‘مومنو!جب تم نماز پڑھنے کا قصدکیا کروتومنہ اورکہنیوں تک ہاتھ دھولیاکرواورسرکامسح کرلیا کرواورٹخنوں تک پاوں (دھولیا کرو)’’
ان اعضاء کےدھونے اور سر کے مسح کا تقاضا یہ ہے کہ اس چیز کو زائل کیا جائے جو ان اعضاء تک پانی کے پہنچنے میں حائل ہو۔کیونکہ کسی چیز کے حائل ہونے کی صورت میں پانی اعضاء تک نہ پہنچ سکے گا۔اور اس طرح و دھل نہ سکیں گے۔تو اس کی بنیاد پر ہم یہ کہیں گے۔کہ انسان جب اپنے اعضاء وضوء پر کوئی تیل وغیرہ استعمال کرے اور اگر وہ جامد شکل میں ہو تو ضروری ہے۔ کہ وضوء سے پہلے اسے زائل کردیا جائے۔کیونکہ تیل اگر اسی طرح جامد صورت میں اعضاء پر لگا رہا تو وہ جسم تک پانی کو نہیں پہنچنے دے گا۔ جس کی وجہ سے وضوء صحیح نہ ہوگا۔
اگر تیل جامد صورت میں اعضاء پر باقی نہ ہو بلکہ صرف اس کا اثر باقی ہو تو یہ نقصان دہ نہیں ہے لیکن اس صورت میں اعضاء وضوء کو ہاتھوں کو نہ ملنے کی صورت میں ممکن ہے تمام اعضاء تک پانی نہ پہنچ سکے لہذا ہم سائل سے یہ کہیں گے کہ اگراعضاء طہارت پر موجود یہ تیل جامد ہے اور وہ پانی کے اعضاء تک پہنچنے میں حائل ہے تو پھر اسے وضوء سے پہلے زائل کرنا ضروری ہے اوراگر یہ جامد صورت میں موجود نہیں تو پھر کیا حرج نہیں اور اسے صابن سے دھونا ضروری نہیں لیکن اعضاء وضوء کو ہاتھوں کو خوب ملئے کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی تیل کے اوپر سے پھسل جائے ۔واللہ اعلم ۔(شیخ ابن عثمین ؒ)