السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کیا بیوی کو ماں باپ کے کہنے پر طلاق دینا درست ہے جبکہ میاں بیوی کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں؟ ازراہ کرم بالتفصیل دلائل شرعیہ سے جواب دیں۔جزاکم اللہ خیرا الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! اللہ تعالیٰ نے طلاق کا اختیار آدمی کے ہاتھ میں دیا ہے۔ اس کی مصلحت بھی یہی تھی کہ آدمی عقل و دانش کے لحاظ سے عورت کی نسبت پختہ ہوتا اوراپنے اچھے بُرے کو پہچان کر فیصلہ کرتا ہے۔ والدین کا انسان پر بہت سے حقوق واجب ہیں جن میں ان کی اطاعت سرفہرست ہے۔ اور کیا طلاق کے معاملہ میں بھی والدین کی ا طاعت ضروری ہے؟ اس بارے دو واقعات ہمارے پیش نظر رہنے چاہئیں ۔ ایک حضرت ابراہیمؑ کا حضرت اسماعیلؑ سے اس کی بیوی کو طلاق کا کہنا۔(صحیح بخاری:336) اور دوسرا ابن عمرؓ کو حضرت عمرؓ کا اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حکم کرنا اور رسول اللہ ﷺ کا انہیں باپ کی اطاعت کا کہنا ( سنن ترمذی:950) یاد رہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ میں واضح ہے کہ اس عورت نے حضرت اسماعیلؑ کی ناشکری کی تھی ان وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت ابراہیمؑ نے اپنےبیٹے کو طلاق کا کہہ دیا۔ اسی طرح حضرت عمرؓ بھی ایک بالغ نظر اور دوراندیش آدمی تھے۔ ان کے پیش نظر بھی ضرور کوئی ایسی وجہ تھی کہ انہوں نے اس عورت کو چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ اگر تو ایسی کوئی صورت ہو کہ جس میں والدین اپنے بیٹے کو اس کی بیوی کے شر سے بچانے کے لیے طلاق کا حکم کررہے ہوں تو درست ہے۔ لیکن کیا ماں باپ کے کسی عذر کے بغیر ہر حکم پر بیوی کو طلاق دی جائے ۔؟ یہ درست نہیں۔ اگر ماں باپ صرف دشمنی اور غلط فہمی میں مبتلا ہوکر یہ حکم کریں گے تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔ کیونکہ بیوی کو بلا عذر طلاق دینا اس پر ظلم ہے اور خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت کرنا حرام ہے۔ امام ابن تیمیہ سے اس بارے سوال کیا گیا کہ ایک شادی شدہ آدمی جس کی اولاد بھی ہے اس کی ماں اپنی بہو کو ناپسند کرتی ہے اور اپنے بیٹے کو طلاق کا کہتی ہے اس بارے کیا رائے ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اسے اپنی ماں کے کہنے پر طلاق دینا حرام ہے اس پر اس کی ماں کے ساتھ نیکی فرض ہے اور طلاق کا کہنا نیکی نہیں ہے۔ (مجموع الفتاویٰ:33؍ 112) امام احمد رحمه الله سے ایک آدمی نے پوچھا کہ اس کے باپ نے اس کی بیوی کو طلاق کا حکم کیا ہے؟ فرمایا: اسے طلاق نہ دو وہ شخص کہنے لگا عمرؓ نے بھی تو عبداللہ ابن عمرؓ کو اپنی بیوی کے طلاق کا حکم کیا تھا۔ امام صاحب فرماتے ہیں ہاں اگر تمہارا باپ حضرت عمرؓ کی طرح ہوجائے تب ٹھیک ہے۔ (الآداب الشرعیۃ لابن مفلح:1؍447) مذکورہ بالا فتاویٰ سے معلوم ہوا کہ اگر ماں باپ کے حکم طلاق میں ان کی دشمنی یا نادانی محرک ہو تو تب انکا یہ حکم جھٹلایا جاسکتا ہے اور یہ نافرمانی شمار نہیں ہوگا۔ ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب فتویٰ کمیٹیمحدث فتویٰ |