سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(48)امام کے پیچھے جہری نمازوں میں سورۃ وفاتحہ کی قرا ء ت مكمل نہ ہو سکے

  • 16208
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1162

سوال

(48)امام کے پیچھے جہری نمازوں میں سورۃ وفاتحہ کی قرا ء ت مكمل نہ ہو سکے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جہری اور تراویح کی نماز میںجب امام سورہ فاتحہ کی قراء ت سے فارغ ہوتا ہے تو قرآن کی قراء ت شروع کر دیتا ہے اور میں فاتحہ نہیں پڑھ سکتا کیونکہ اتنا وقفہ ہوتا ہی نہیں جس میں سورہ فاتحہ پڑھی جاسکے ۔ اطلاعا عرض ہے کہ میں نے یہ حدیث بھی پڑھی ہے:

((لا صلاة لِمَنْ لَمْ یقرأْ بفاتحة الْکتاب۔))

اور یہ بھی:

((قراء ة الإ مامِ قرا ء ة لمنْ خلفه۔))

ان دونوں میں تطبیق کیسے کی جائے؟

عبدلراحمن ۔ ن۔ الریاض

 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنے کے وجوب میں علماء نے اختلاف کی اہے اور راجح اس کا وجوب ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے قول:

((لا صلاة لمنْ لَمْ یقرأْ بفاتحة الکتاب۔))

(متفق علیہ) میں عمو میت ہے۔

نیز آپﷺ نے صحابہ سے کہا: شاید تم اپنے امام کے پیچھے پڑھتے رہتے ہو؟ صحابہ جواب دیا۔’’ ہاں آپ نے فرمایا’’ ایسا مت کرو۔ صرف فاتحة الکتاب پڑھ لیا کرو کیونکہ جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی‘‘ اس حدیث کو ابودائود نے اسناد حسن سے نکالا ہے۔

اگر امام جہری نماز میں سکتہ نہیں کرتا تو مقتدی اپنے امام کی قراء ت کے ساتھ ساتھ ہی دل میں پڑھ لے تاکہ دونوں مذکورہ حدیثوں پر عمل ہوجائے۔ اگر مقتدی سورہ فاتحہ پڑھنا بھول جائے یا سے سورئہ فاتحہ کے وجوب کا علم ہی نہ تو فاتحہ اس سے ساقط ہوجائے گی جیسے کوئی شخص مسجد میں آئے اور امام رکوع کی حالت میں ہوا اور وہ اس کے ساتھ رکوع میں شامل ہوجائے تو علماء کے دو اقوال میں سے صحیح ترقول کے مطابق اس کی رکعت ادا ہوگئی اور اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اس کی دلیل ابو بکر ثقفی رحمہ اللہ  والی حدیث ہے کہ وہ مسجد میں آئے تو نبیﷺ رکوع میں تھے۔ ابو بکرثقفی رحمہ اللہ  نے صف میں شامل ہونے سے پہلے رکوع کی پھر صف میں شامل ہوئے ۔ سلام کے بعدنبی ﷺنے انہیں فرمایا:

((زادَکَ اللّٰه حِرْصاً ولا تعُدْ۔))

اور آپ نے انہیں اس رکعت کی قضا کا حکم نہیں دیا اسے بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے