سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(45)کیا جہری نمازوں میں امام پر واجب ہے کہ وہ اتنی دیر خاموش رہے، جس میـں مقتدی فاتحہ پڑھ سکے؟

  • 16205
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 921

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سورة  فاتحہ کے بعد امام کے اتنی دیر ٹھہر جانے کے متعلق کیا حکم ہے جتنی دیر میں مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ سکے؟ اور اگر اما م اس وقفہ کے لیے نہ ٹھہرے تو مقتدی سورئہ فاتحہ کب پڑھے؟

عبدالرزاق۔س۔ القصیم


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہری نمازوں میں امام کے سکوت کی مشروعیت پر کوئی صحیح صریح دلیل موجود نہیں ہے، جس میں مقتدی فاتحہ پڑھ سکے۔ البتہ مقتدی کے لیے یہ جائز ہے ہ وہ امام کے سکتات کی حالت میں پڑھ لے اگر وہ آیت پڑھنے کے بعد ساکت ہوتا ہو اور اگر یہ بات میسر نہ آئے تو دل میں پڑھتا جائے اگر چہ امام وہی کچھ پڑھ رہا ہو پھر اس کے بعد امام کے پڑھنے کے لیے چپ ہوجائے۔ یہ اس لیے کہ آپﷺ کے درج ذیل قول میں عموم پایا جاتا ہے:

((لاصلاة لِمنْ لمْ یقرأْ بفاتحة الکتابِ۔))

’’ جس نے فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ نیز آپﷺ نے فرمایا:

((لعلَّکُم تَقْرئُون خلْفَ إمامِکم قالوُا: نعَمْ قالَ : لاتفْعلُوا إلاَّبفاتحة الکتاب فإنَّة الاصلاة لمنْ لمْ یقرأْبھا۔))

 شاید تم اپنے امام کے پیچھے پڑھتے رہتے ہو؟ صحا بہ کہنے لگے‘‘ہاں آپﷺ نے فرمایا:

’’ ایسا مت کرو۔ البتہ فاتحہ الکتاب پڑھ لیا کرو کیونکہ جس نے سورئہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘

اس حدیث کو احمد، ابودائود اور ابن حبان نے اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ اور یہی دو حدیثیں ہیں جو اللہ عزوجل کے درج ذیل قول کو خاص کرتی ہیں ۔

﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿٢٠٤﴾...الأعراف

’’ اورجب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو او رخاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ (الاعراف: ۲۰۴)

اور آپ ﷺ کے قول کو بھی:

((إنَّما جُعِلَ الامامُ لِیُؤتَمَّ به فلاَ تخْتلِفُوا علیه، فإذا کبَّر فکبَّروا وإذا قرَأَ فأنْصِتُوا۔))

’’ امام تو بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ اس کی اقتدار کی جائے لہٰذا اس کے خلاف کچھ نہ کرو۔ جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو تم خاموش رہو۔‘‘

مسلم نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ