سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(163) سورۃ فاتحہ اور نماز کے سکتوں کے بارے میں

  • 1619
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 1167

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کا کون سا طریقہ ٹھیک ہے ذیل میں چند احادیث پیش کرتا ہوں۔ وضاحت فرمائیں کیا یہ ٹھیک ہیں؟ ٹھیک ہیں تو ان کے مطابق فاتحہ پڑھنی چاہیے؟

(۱) سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ دو سکتے کرتے تھے ایک اس وقت جب صلاۃ شروع کرتے اور ایک اس وقت جب آپ ﷺ قرات سے فارغ ہوتے۔

(۲) عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہما آپﷺ کے پیچھے اس وقت پڑھتے جب آپﷺ خاموش رہتے پھر آپﷺ پڑھتے تو صحابہ رضی اللہ عنہما کچھ نہیں پڑھتے تھے جب آپﷺ خاموش ہو جاتے تو پھر پڑھتے تھے۔

(۳) آپﷺ نے خطبہ میں فرمایا : جو شخص امام کے ساتھ صلاۃ پڑھ رہا ہو اسے چاہیے کہ جب امام سکتہ کرے تو امام سے پہلے ہی سورۃ فاتحہ پڑھ لے۔

(۴) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : امام کے دو سکتے ہوتے ہیں ان دونوں میں سورۃ فاتحہ کی قرات کو لوٹ لو۔

(۵) جب امام سورۃ فاتحہ پڑھے تو تم بھی سورۃ فاتحہ پڑھو اور اس سے پہلے پڑھو ۔ برائے مہربانی مندرجہ بالا روایات کی وضاحت فرمائیں ۔ اکثر علماء کرام دو سکتہ نہیں کرتے کیا دوسرا سکتہ کرنا چاہیے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس سوال میں مندرج روایات سے متعلقہ جوابات ترتیب وار نیچے لکھے جاتے ہیں بفضل اللہ تعالیٰ وتوفیقہ ۔

(۱) دو سکتوں سے متعلق سمرہ بن جندبﷺ والی روایت ضعیف ومعلول ہے کیونکہ اس کی سند میں حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں ان کے متعلق تقریب میں لکھا ہے ’’ وکان یرسل کثیرا ویدلس‘‘ (۶۹) یہ کثرت سے ارسال اور تدلس کیا کرتے تھے اور اس مقام پر انہوں نے سماع کی تصریح نہیں فرمائی اس اجمال کی تفصیل معلوم کرنا چاہتے ہوں تو ارواء الغلیل (۲/۲۸۴-۲۲۸/۵۰۵) اور سلسلہ ضعیفہ (۲/۲۵- ۲۶/ ۵۴۷)  دیکھ لیں ۔

(۲) عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی یہ روایت قرات کے دوران وقفات وسکتات سے متعلق ہے جیسا کہ اس کے الفاظ سے ظاہر ہے اور آیات کے درمیان وقفات رسول اللہﷺ سے ثابت ہیں تو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی اس روایت سے دو سکتوں پر استدلال درست نہیں یاد رہے تحریمہ کے بعد اور قرات سے پہلے والا سکتہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔

(۳) اس کی ایک سند میں ابن لہیعہ اور دوسری سند میں مثنی بن صباح ہیں یہ دونوں ضعیف ہیں بر سبیل تنزل اگر تسلیم کر لیا جائے کہ یہ روایت حسن لغیرہ ہے جیسا کہ صلاۃ المسلمین والے کی عبارت سے واضح ہے تو بھی اس سے دو سکتے ثابت نہیں ہوتے اس سے تو صرف ایک ہی سکتہ ثابت ہوتا ہے جو قرات سے پہلے ہوتا ہے اور اس سکتے پر تمام امام عمل کرتے ہیں۔

(۴) یہ روایت موقوف ہے اور موقوف حجت نہیں کیونکہ حجت اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت ثابتہ ہے پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ایک قول تو یہ ہے اور دوسرا قول وہ ہے جس کو آپ نے نمبرپانچ میں ذکر کیا ہے اور اس میں ابوہریرہرضی اللہ عنہ حکم دے رہے ہیں ’’ وَاسبِقْہُ‘‘ اور اس سے (امام سے) پہلے پڑھ لو‘‘ اگر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دوسرے سکتے میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل ہوتے تو مقتدی کو امام سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم نہ دیتے تو اس روایت سے پتہ چلا کہ نمبر چار والی روایت کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا بعض راویوں کا وہم ہے وہ تو ابو سلمہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جسے غلطی سے کسی راوی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول بنا دیا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 143

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ