السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے سورہ مریم کی آیات نمبر ۷۱۔۷۲ پڑھیں جویوں ہیں ۔بسم اللہ الرحمن:
وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ﴿٧١﴾ ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا ﴿٧٢﴾...مريم
’’ اور تم میںسے کوئی شخص ایسا نہیں جو جہنم پروار نہ ہو۔ یہ بات تمہارے پروردگار پر لازم اور طے شدہ ہے ۔ پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا ہو اچھوڑ دیں گے۔ (مریم: ۷۱۔۷۲)
میں چاہتا ہو ں کہ اس آیت کریمہ اور بالخصوص ورود کے معنی سمجھوں۔ میں نے ابن رجب حنبلی کی کتاب میں پڑھا وہ کہتا ہے کہ ائمہ نے وررد کی تفسیر میں اختلاف کیا ہے۔ تو کیا ورود کا معنی دوزخ میں داخل ہونا ہے۔ یعنی مومن اور کافر سب جہنم میں داخل ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو دوزخ سے نجات دے گا ۔ یا اس لفظ سے مقصود محض اس صراط (راستہ) (پل) پرچلنا ہے جو تلوار کی دھار کی طرح ہوگا۔ پھر پہلا گروہ تو بجلی کی طرح (برق رفتاری سے ) اس پر سے گزر جائے گا دوسرا ہوا کی رفتار گھوڑے اور چوتھا تیز رفتار اونٹ اور جانوروں کی رفتار سے گزر رہے ہوں گے اور فرشتے کہہ رہے ہو گے ۔ اے پروردگار! انہیں سلامت رکھ، انہیں سلامت رکھ۔
حنان۔ا۔ المنطقہ۔ الوسطی
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ ﷺ سے منقول احادیث صحیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وردو سے مراد صراط (پل) کے ا وپر سے گزارتا ہے جو جہنم کی پشتپ پر رکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اس سے پناہ میں رکھے۔ لوگ اس پر سے اپنے اعمال کی مناسبت سے گزریں گے جیساکہ ان احادیث میں مذکور ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب