سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(05)منتر اور تعویذات

  • 16148
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1698

سوال

(05)منتر اور تعویذات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عبداللہ بن معسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سناہے کہ:

((إِنَّ الرُّقی والتَّمَائِمَ والتَّولة شِرك))

جنتر ، منتر، تعویذ اور گنڈا شرک ہے۔

اورجابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا ایک ماموں تھا جو بچھو کے کاٹے کے لیے جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہنے لگا: ’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا ہے جبکہ میں بچھو کے کاٹے کا جھاڑ پھونک (دم) کرتا ہوں‘‘ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ اگر کوئی اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، تواسے وہ کام کرنا چاہئے‘‘۔

جھاڑ پھونک کے بارے میں ایک حدیث ممانعت کی ہے دوسری جواز کی ۔ ان دونوں میں تطبیق کی کیا صورت ہے؟ اگر کوئی بیمار شخص اپنے سینے پر قرآن کی آیات والا تعویذ لٹکائے تو اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس جھاڑ پھونک سے منع کیا گیا ہے وہ وہ ہے جس میں شرک ہو یا غیر اللہ سے توسل ہو ، یا اس کے الفاظ مجہول ہو ں جن کی سمجھ نہ آسکے۔

رہا کسی ڈسے ہوئے آدمی کو دم جھاڑ کرنے کا مسئلہ تو یہ جائز ہیاور شفاء کا بڑا ذریعہ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:

((لا بأسَ بالرُّقی ماَلَم تکُنْ شرکا))

’’جس دم جھاڑ میں شرک نہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں‘‘

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((منِ اسْتطاَعَ أَنْ یَنفعَ أخَاہ فَلَیَنْفَعَہ))

’’ جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو اسے وہ کام کرنا چاہئے‘‘

ان دونوں احادیث کی مسلم نے اپنی صحیح میں تخریج کی ہے۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((لا رُقیة إِلا مِن عین أَوحُمَة))

’’ دم جھاڑ نظر بد اور بخار کے لیے ہی ہوتا ہے‘‘

جس کا معنی یہ ہے کہ ان دو باتوں میں ہی دم جھاڑ بہتر اور شفابخش ہوتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دم جھاڑ کیا بھی ہے اور کرایا بھی ہے

رہادم جھاڑ یا تعویذ کو مریضوں اور بچوں کے گلے میں لٹکانا تو یہ جائز نہیں ۔ ایسے لٹکائے ہوئے تعویذ کو تمائم بھی کہتے ہیں اور حروز اور جو امع بھی ۔اورحق بات یہ ہے کہ یہ حرام اور شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((مَنْ تعلَّق تمیمة فلاَ أَتمَّ اللَّہُ لَہ، ومَنْ تعلَّق وَدعة فَلَا وَدَع اللّٰہُ لہ۔))

’’ جس شخص نے تعویذ لٹکایا اللہ تعالیٰ اس کا بچاؤ نہیں کر ے گا اور جس نے گھونگا باندھا وہ اللہ کی حفاظت میں نہ رہا‘‘

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَنْ تعلَّق تمیمة فقد أَشرْکَ))

’’ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا‘‘

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((إِنَّ الرُّقی وَالتَّمائِمَ والتَّولة شِرْکٌ))

دم جھاڑ، تعویذ اور گنڈا شرک ہے‘‘

ایسے تعویذ جن میں قرآنی آیات یا مباح دعائیں ہو ں ان کے بارے علماء کا اختلاف ہے کہ آیا وہ حرام ہیں یانہیں؟ اور راہ صواب یہی ہے کہ وہ دو وجوہ کی بنا پر حرام ہیں۔

ایک وجہ تو مذکورہ احادیث کی عمومت ہے کیونکہ یہ احادیث قرآنی اور غیر قرآنی ہر طرح کے تعویذوں کے لیے عام ہیں۔

 اور دوسری وجہ شرک کا سدباب ہے کیونکہ جب قرآنی تعویذوں کو مباح قرار دے جائے توان میں دوسرے بھی شامل ہو کر معاملہ کو مشتبہ بنادیں گے اور ان سے مشرک کا دروازہ کھل جائے گا۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ جو ذرائع شرک یا معاصی تک پہنچانے والے ہوں ان کا سدباب شریعت کے بڑے قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے اور توفیق تو اللہ ہی سے ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 32

محدث فتویٰ

تبصرے