السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر پیش امام اپنے نابالغ بچے کواپنے ساتھ دائیں طرف تعلیم کی غرض سےکھڑا کرکےنماز پڑھے توکیا اس کودوامام قراردیاجائے گا اورکیا کرنے سےمقتدی کی نماز میں خلل واقع ہوگا اورکیا امام گنہگار ہوگا۔عبدالحلیم پٹنہ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آں حضرت ﷺ نے اپنی نواسی حضرت امامہ بنت زینب کوفرض نمازپڑھانے کی حالت میں دوش اقدس پراٹھارکھا تھا جب رکوع اورسجدہ کےلیے جھکتے توان کودوش مبارک سےزمیں پراتادیتے ۔(بخاری : کتاب الاذان ، اذا حمل جاریة صغیرة علی عنقه فى الصلاة 1/131) مسلم )( کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب جواز حمل الصبیان فى الصلاة (543)1/385 ) وغیرہ معلوم ہواکہ امام کےاپنے ساتھ نابالغ بچہ کوکندھے پراٹھائے رکھنے سے، یابغرض تعلیم دائیں جانب کھڑا کرنےسےیاکسی بالغ مقتدی کواپنے پہلو میں کھڑارکھنے سےمقتدیوں کی نماز میں کوئی خلل نہیں واقع ہوتااورنہ امام گنہگار ہوتاہے ان کو دوامام قراردیاجائے گا۔ہاں مناسب یہ ہےکہ نابالغ بچوں کومردو ں کی صف کےپیچھے کھڑا کیاجائے ۔ ’’ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ قَالَ: قَالَ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ : «أَلَا أحدثكم بصلوة النبى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قال : فأقام الصلوة ، فصف الرجال ، وصف الغلمان خلفهم ، ثم صلى فذكر صلوته ، ثم قال : هكذا صلوة أمتى ،،(مسند احمد: 5/342 )، ابوداؤد (كتاب الصلوة ، باب مقام الصبيان من الصف (677)1/437-438 ).
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب