السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شعبہ حفظ کےطلبہ کوأعلم وأقرأ کی موجودمیں امام بنانا جائزہےیانہیں ؟ جب کہ اس سےان کی جھجک کودوراوران میں امامت کی لیاقت وصلاحیت پیداکرنامقصود ہو؟ (عبدالرؤف خان جھنڈا نگربستی )
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
درجہ حافظہ کےیہ طلبہ اگرنابالغ ہیں ، تواگرچہ فرائض میں نابالغ کی امامت بالغ مقتدیوں کےحق میں درست ہے،لیکن بالغ اقراواعلم کےہونے ہوئے ان کی امامت بنانا درست نہیں ، حضرت عمروبن سلمہ کوسات برس کی عمر میں ، ان کےاقراءہونےکی بناپرامام فرائض بنایا گیا تھا واذ لیس فلیس اوران طلبہ کےبالغ ہونے کی صورت میں اقراواعلم کےہوتےہوئے محض ان کی جھجک دورکرنے اوران میں امامت کی لیاقت وصلاحیت پیداکرنے کےلیے ان کوامام بنانا ’’ یؤم القوم اقراھم ،، کےخلاف ہے ،جن احادیث سے مفضول کی امامت ثابت ہوتی ہےوہ فاضل کی عدم موجودگی کاواقعہ ہےجیسے: امامت ابوبکر آں حضرت ﷺ کی مرض الموت میں ، یابوقت مصالحت فیما بین اہل قبا ،یاامامت عبدالرحمن بن عوف ۔ (محدث دہلی 1942)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب