سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(123)امامت کے حوالہ سے چند اشکالات کے جواب

  • 16112
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1026

سوال

(123)امامت کے حوالہ سے چند اشکالات کے جواب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے یہاں مسجد اہل حدیث میں دوڈھائی سال سے مولانا محمدامین اثری مبارک پوری امامت،خطابت کےفرائض انجام دےرہےہیں ۔اس کےعلاوہ آپ درس قرآن مجید اور درس حدیث بھی دیتےہیں ۔اس عرصے میں ہم نےکبھی آپ کےکسی قول وفعل سےقرآن وسنت کی مخالفت نہیں دیکھی ، اور آپ کئی دفعہ خداکوگواہ بناکرعہد کرچکےہیں کہ وہ کبھی قرآن وسنت کےخلاف کسی بات کی تبلیغ نہ کریں گےاوراگر کبھی وہ خدانخواستہ ایسا کربیٹھیں  ، توانہوں نے جملہ مسلمانوں سےان کی پرزور مخالفت اوراصلاح کی درخواست بھی کی  ہے۔ آپ پکے اہل حدیث ہیں اورہم نےآج تک کوئی فعل کبھی ان سے حدیث کےخلاف سرزد ہوتےنہیں دیکھا ۔حتی کہ آپ  کےسخت سےسخت مخالف بھی اس حقیقت کااعتراف کرتےہیں ،لیکن ساتھ ہی ساتھ مولانا موصوف جماعت اسلامی کےرکن بھی ہیں اوراس جماعت سےان کا تعلق کئی سال پیشتر کاہے۔وہ جس وقت مالیرکوٹلہ تشریف لائے تھے ، اس سے پہلے جماعت اسلامی کےرکن تھے۔

ابھی چندروز ہی  ہوئے ایک مولاناعبداللطیف  صاحب ساکت محلّہ  کشن گنج دہلی یہاں تشریف لائے ۔انہوں نے ایک گفتگومیں فرمایا ’’جیسا کہ کسی گاڑی میں گھوڑا ،بیل،اونٹ  ،خیچر حتی کہ گدھا تک جت سکتاہےلیکن کتانہیں جت سکتا،اسی طرح امامت کےلیے ایک ایسا موحد جوداڑھی  منڈاہو ،سینما دیکھتا ہو،شراب پیتا ہواوربےعمل بھی ہوجائز ہوسکتاہےمگر جماعت اسلامی سےتعلق رکھنے والےکےپیچھے  ہرگز ہرگز نماز نہیں ہوسکتی ۔،، مولانا عبداللطیف صاحب واپس تشریف لےگئے ہیں ، اورسنا ہےکہ انہوں نے بعض افراد کےسامنے اس کی معافی بھی مانگ لی ہے،لیکن یہاں کی جماعت میں ایک مستقل افتراق کی صورت پیدا ہوگئی ہے،یعنی کچھ  افراد دانستہ جماعت کاوقت چھوڑ  کراپنی الگ نماز پڑھتےہیں اورمولاناامین اثری صاحب کےپیچھے نماز پڑھنا درست نہیں تصور کرتےاورمولانا صاحب کی امامت میں نماز ختم ہونے کاانتظار کرتےرہتےہں ۔درآں حالیکہ نمازیوں کی ایک  نمایاں اکثریت مولاناصاحب کودوربارہ امام مقرر کرچکی ہے اوران کےپیچھے نماز پڑھتی ہے۔آپ کےعلم وامتیاز کےپیش نظر دریافت طلب یہ امور ہیں کہ قرآن وحدیث نبوی ﷺ کی رو سے ۔

(1)  کیا مولانا محمدامین صاحب  اثری کےپیچھے نماز پڑھناجائز ہےیاناجائز ؟

(2)   کیا جماعت کےہوتےہوئے دانستہ دوسری جماعت کرانادرست ہے ؟

(3)  کیامولانا عبداللطیف صاحب کاامامت کےبارے میں ارشاد درست ہے ؟

(4)  کیاکوئی شخص ایک ہی وقت میں  اہل حدیث اوررکن جماعت اسلام نہیں ہوسکتا ؟

(5)   اگر دوشخصوں میں امامت کےلیے انتخاب کرنا ہوتو کیادونوں میں سے زیادہ عالم کومنتخب کرناچاہیے  ؟

(6)  مولانا محمدامین صاحب کوامامت سےعلیحدہ کرنے کےلیے جھگڑنےوالے کیسے ہیں ؟

ازراہ نوازش جوابات مفصل اورواضح ارسال فرمائیں ۔ خدائے کریم آپ کواس کااجر دے گا۔ آمین آپ کاصادق محمد کفایت اللہ  مالیرکوٹلہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

از حضرت مولانا نذیر احمد صاحب اول جامعہ رحمانیہ  بنارس ، رکن مجلس شوریٰ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس ۔

مکرمی جناب ہیڈماسٹر صاحب : ؍ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کا رجسٹرڈ مکتبوب گرامی ملا ۔ جس کی بابت  آپ نے استفسار فرمایا ہےاس کی تفصیل  پڑھ کر بڑا افسوس ہوا۔ مولوی عبداللطیف صاحب دہلوی کومیں اچھی طرح جانتاہوں ۔ ان حضرات نےجماعت اسلامی کی کوئی ایک کتاب بھی براہ راست مطالعہ نہ کی ہوگی یا اگر کتاب پڑھی ہوگی ، تو خالی الذہن انصاف کی روسے تحقیق کی نیت سے نہیں  ، بلکہ اپنے دماغ میں پہلے سےیہ فیصلہ قائم کرکے پڑھا ہوگاکہ یہ گمراہ شخص کی کتاب ہے ، توایسے حالات میں کسی مضمون کوپڑھ کرحق یاناحق کا فیصلہ کیاکرسکتےہیں۔مجھے حیرت ہےکہ یہ لوگ ادھر اُدھر کی سنی سنائی باتوں پڑاُلٹے سیدھےاقتبال کودیکھ کرکس طرح ایسے سخت فتوے دینے کی جرات کودیتےہیں ۔

مین نے جماعت اسلامی کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں ۔ خاص کروہ مضمون جن کی بناءپراس  جماعت کومطعون کیاجاتا ہے، لیکن خدا شاہد ہےکہ آچ تک کوئی ایسی بات مجھے ان کتابوں میں نہیں ملی جس کی بناپرمیں اس فتویٰ کوصحیح سمجھوں کہ جماعت اسلامی سےتعلق رکھنے  والے کےپیچھے ہرگز ہرگز نماز نہیں ہوسکتی ۔

مودودی صاحب کی جن عبارتوں براعتراض کیاجاتا ہے ، ان کی حقیقت  یہ ہےکہ لمبےمضامین میں سے آگے پیچھے کاحصہ حذف کرکےبیچ بیچ سے ٹکڑے اٹھالیےجاتےہیں ، اور ان کو پیش کرکےکہاجاتاہےکہ دیکھو مودودی نےیہ لکھاہےاوراس کاعقیدہ یہ ہے ۔ ٹھیک وہی طریقہ جواہل بدعت نےحضرت اسماعیل شہید ﷫ کی بعض عبارتوں کےمتعلق اختیار کیا ہے۔ کیا اسی طرح قرآن مجید کی آیت لا تقربوا الصلوۃ پیش کرکے یہ  نہیں کہاجاسکتا کہ قرآ  ن میں نماز پڑھنے سےمنع کیا گیا ہے ۔ (عیاذ باللہ )

میں مولوی محمدامین صاحب اثری کوبھی اچھی طرح جانتا ہوں ۔ وہ ایک موحد ،متبع سنت ،عالم باعمل اورصالح نوجوان ہیں ،محض جماعت اسلامی سےتعلق رکھنے کی بناپران  کےپیچھے نماز پڑھنے سے گریز کرنا ، سراسر جہالت ،شرارت اورفتنہ انگیز ی ہے۔ جماعت اسلامی  کوکوئی عقیدہ ایسا نہیں ہےکہ جس سےان کےموحد ہونےمیں شبہ کیاجائے ۔ہاں مودودی صاحب کےچندذاتی خیالات اورفروعی مسائل میں ان کی ذاتی تحقیقات کچھ ایسی ضرور ہیں جن سےعلمی طورپرہمیں اختلاف ہے، لیکن اولاً  تووہ پوری جماعت کاعقیدہ نہیں ہےاور نہ ہی جماعت اسلامی میں داخل ہونے کےلیے ان باتوں کاماننا ضروری قراردیا گیاہے۔اگر بالفرض ایسا ہےبھی تووہ باتیں ایسی نہیں ہیں کہ ان کی وجہ سے اس جماعت کوگمراہ یاکافرقراردیا جائے یاان کےپیچھے نماز پڑھنے  سےمنع کیاجائے ۔بخاری شریف میں یہ واقعہ  موجودہے کہ ’’ جب خلیقہ ثالث حضرت عثمان ﷜ کوباغیو ں نےان کےگھر میں محصور کردیا اورمسجد نبوی پرقبضہ کرکےباغیوں ہی کاامام نمازا پڑھانےلگاتو لوگوں نے ان کےپیچھے نماز پڑھنے میں تامل کیااورحضرت عثمان ﷜ سےجاکرکہا۔ انہوں نے فرمایا کہ نماز پڑھنا ایک اچھا کام ہے،اس لیے اس میں ان کا ساتھ دواور جب وہ لوگ کوئی بُرا کام کریں توتم اس کام سےدوررہو ۔ ،،

سوچنے کی بات ہےکہ حضرت عثمان ﷜ جیسے صحابی کوقتل کردینے کا منصوبہ تک رکھنےوالے لوگوں کےپیچھے جب نماز کی اجازت ہو ، اوران سےالگ رہ کرامت میں افتراق  ڈالنے سےروکا گیاہو ، توبھلا ایک ایسے مسلمان موحد کی امامت کوکیسے ناجائزکہاجاسکتاہے جس کاکوئی بھی عمل قرآن وسنت کےخلاف نظرنہ آتا ہو، اورجس کےعقیدے کی خرابی کےمتعلق سوائے تعصب اوربے بنیاد بدگمانیوں کے، اور کوئی حقیقت نہ ہو ۔ اس لیے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولوی محمدامین صاحب اثری کی امات بالکل جائز ہےاورجولوگ  ان کی امامت کوناجائز کہہ رہے ہیں وہ جماعت میں اورمسلمانوں میں تفریق پیدا کرنےکاگناہ اپنے ذمہ لےرہےہیں ۔

   (دستخط مولانا نذیراحمد رحمانی )

از حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمانی شیخ الحدیث دارالحدیث رحمانیہ دہلی نگراں اصول رسالہ محدث دہلی ورکن مجلس شوریٰ انڈیا اہل حدیث کانفرنس

(1)  ’’ صحت اقتداء سےمانع ، کفری عقیدہ اورعمل ہے ۔ فسق وبےعملی ،صحت اقتداء سےمانع نہیں ہے ۔یہ اوربات ہے کہ فاسق اوربے عمل کوقصداً امامت نہیں سپرد کرناچاہیے مگر نماز توبہرحال اس کےپیچھے جائز اوردرست ہے۔ مولانا محمدامین اثری صاحب رحمانی  مبارکپوری کسی کفر عقیدے اورعمل کےمرتکب نہیں ۔فی الحال جہاں تک مجھ کومعلوم ہےان کی یہی حالت اورکیفیت ہے ۔ آئندہ کاحال   علام الغیوب ہی کومعلوم ہے ۔ پس ان کی اقتداء ا بلاشبہ جائز اوردرست ہے۔

جماعت اسلامی کےنصب العین اوردستور میں مجھ کو کوئی کفروفسق یابدعت وضلالت کی بات نہیں معلوم ہوئی ۔رہ گئے حدیث سے متعلق مودودی صاحب کےبعض  مضامین جوحنفیہ کےموافق اورعلماء اہل حدیث کی تحقیق کےخلاف ہیں ۔ اس طرح ان کےبعض اجتہادی مسائل وفتاویٰ جومسلک اہل حدیث کےخلاف ہیں تویہ سب مودودی صاحب کےذاتی خیالات ہیں ۔ جن کاماننا ارکان  جماعت ووابستگان کےلیے ضروری نہیں کیونکہ  یہ مضامین ومسائل جماعت اسلامی کادستورنصب العین نہیں۔کوئی جاہل رکن یاہمدرد اگرمودودی صاحب کےہراجتہادی مسئلہ کو، اور ان کی ہرتحقیق کو ، حق اوراس کےخلاف کوغلط سمجھتا ہے ،تواس کی کورانہ تقلید ہےجس سےخود مودودی صاحب نے روکاہے۔مولانا محمدامین صاحب  اثری عالم شخص ہیں۔معاملہ بالکل آسان ہےان سےان مضامین کےمتعلق استفسار کرکے معلوم کیا جاسکتاہے۔بہرحال  جماعت اسلامی سےوابستگی کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ مودودی صاحب کی ہرتحقیق اورفتوے کوواجب التسلیم والعمل سجمھا جائے ۔ پس ایسے اہل حدیث عالم کےپیچھے جوجماعت اسلامی سےوابستہ ہو،نماز جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں جو حضرت نماز ناجائز بتاتےہیں ،ان پرکفر کافتویٰ لگا کر بڑی ذمہ داری لیتے ہیں ۔

(2)  صورت مذکورمیں ایسا کرنا ہرگز درست نہیں (ارکعوامع الرکعین)کی صریح مخالفت ہے ۔

(3)  مولانا عبداللطیف صاحب کایہ ارشاد قطعاً غلط ہے ، وہ اپنےمبلغ علم کےاعتبارسے  ایسا فتوی دینے میں معذور ہیں ۔

(4)  موجودہ حالت میں ایک اہل حدیث جماعت اسلامی کارکن بن سکتا ہے،ہاں اگر اہل حدیث اپنے اصل نصب العین اورموقف پرآجائیں اورجماعتی  نظم اختیار کرلیں  ، توان کےکسی فرد کوجماعت اسلامی کےساتھ وابستہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی ۔

(5)ایسی صورت میں عالم باعمل ہی  کوامامت کےلیے منتخب کرنا چاہیے ۔عالم کےہوتےہوے غیرحافظ جاہل کوامام نہیں بنانا چاہیے ۔ارشاد  ہے: ’’(يؤم القوم أقرأهم فإن كانوا فى القرأة سواء فأعلمهم بالسنة )

(6)  یہ لوگ سخت غلط راستے پرہیں ، اللہ تعالیٰ ان کوہدایت دےاورجماعت میں افتراق ونتشار پیدا کرنے سے ان کوباز رکھے۔ واللہ اعلم ۔

دستخط مولانا عبیداللہ صاحب رحمانی شیخ الحدیث ( اقتباس مضمون ازمولانا امین اثری بابت شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی مبارکپوری زندگی نو، اکتوبر 1994ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 223

محدث فتویٰ

تبصرے