سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(122)مسجد میں ’’ حاضرات ‘‘ کرنا

  • 16111
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1121

سوال

(122)مسجد میں ’’ حاضرات ‘‘ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید موحد اہل حدیث ہے، عمر رسیدہ ،بڑے بڑے علماء کاصحبت یافتہ ہےاورمسجداہل حدیث میں امامت بھی کرتا ہے، لیکن یہ پیشہ اختیار کررکھاہے کہ مسجد میں ’’ حاضرات ،، کرتاہے۔یعنی  : ایک بچہ کوغسل کراکرمعطرکرتاہے،پھرآیۃ الکرسی اورسورۂ  یٰسین پڑھتاہے۔بچہ کوبٹھا کراس کےہاتھ میں نقش دیتاہے۔بچہ سےکہا جاتاہےکہ : جنون کےبادشاہ کوبلاؤ ۔ چنانچہ جنون کابادشاہ آتاہےاوربچہ اس سے کچھ سوالات دریافت کرتاہے۔اسی حاضرات سےچوری بتاتاہے،کسی کوسارق قراردیتاہے ، اسی ذیل میں دفائن وگزشتہ  باتیں بتاتاہے  ۔ تعویذ ،گنڈے ، فلیتے وغیرہ بھی کرتاہے۔حاضرات کی فیس لیتاہے ،ایک روپیہ توخودلیاہےچارآنہ مسجدمیں دیتاہے پانچ پیسہ بچہ کودیتاہے۔کیا ایسے افعال موحدین اہل حدیث  کونزدیک جائز ہے؟کیایہ پیسہ مصارف مسجد میں خرچ کرنا جائز ہے؟ کیاایسے شخص کےپیچھےنماز پڑھناجائز ہے ؟ بکرکہتاہے کہ یہ افعال شرک ہیں ! اس لیے جواب قرآن وحدیث سےہوناچاہیے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حاضرات کایہ عمل جس کوزید چوری بتانے اورچور کاپتہ لگانے ،وفائن اورگزشتہ باتیں یا آئندہ واقعات بتانے کےلیے اختیار کرتا ہے،قرآن وحدیث کی روسےقطعاًناجائز ہے۔ زید اس عمل کی وجہ سے عاصی اورگنہگار مخالف قرآن وحدیث اورمستحق تادیب وتعزیرہے۔

(1)  اس لیے کہ یہ طریق کاراز قسم کہانت ہے، جونام ہےآئندہ ہونےوالے واقعات کےبتانے، اور امورعیبیہ کاپتہ لگانے،اوران کی خبردینے سے

تعرض کرنے کا، اور دعائے غیب دانی کا ۔اورکہانت سےآں حضرت ﷺنےمنع فرمایا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی  لکھتےہیں : ’’ إ ن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن الكهانة ، وهى الإخبار عن الجن أشد النهى ، وبرئ ممن أتى كاهنا ،، (حجة الله البالغه ) ، وقال الشيخ الدهلوى ( فى اللمعات) نقلا عن اللسان (3/362)والنهاية (4/214 ) : والكاهن : الذى يتعاطى الخبر عن الكائنات فى مستقبل الزمان، ويدعى معرفة الإسرار ، فمنهم من له تابع من الجن يلقى إليه الاخبار ، ومنهم من يعرف الأموربمقدمات وأسباب  ، يستدل بها على مواقعها ، من كلام أوفعل أوحال، ويخص باسماالعراف ن وهو الذى يتعاطى معرفة مكان المسروق ومكان الضالةونحوها، وحديث من أتى كاهنا، يشمل الكاهن والعراف والمنجم، قال : وينبغى للمسحتسب منعهم وتأديبهم وأن يؤدب الآخذ والمعطى ،،  (حاشيه ابوداؤد : 2/ 545 ) .

(2)  اوراس لیےکہ زید اس عمل میں بچہ کےہاتھ پرنقش وخطوط کھینچتاہےجواز

قسم رمل ہے اورآنحضرت ﷺ نےرمل سےمنع فرمایاہے ارشادہے : ’’ والعيافة والطيرى والطرق من الخبت ، الطرق : الزجر، والعيافة :الخط ،، (ابوداؤد 4/229 )

(3)   اوراس لیے کہ زید جنون کےبادشاہ (شیطان ) سےمغیبات ودفائن وسرقہ

وغیرہ  کا پتہ وحال پوچھتا ہےکہ اس شیطان کوامور غیبیہ کاعلم ہے، حالانکہ امورغیبیہ کاعلم بجز اللہ تعالیٰ کےکسی بشر اورجن وغیرہ کونہیں ہے،اگر بذریعہ استراق بعض امورجزئیہ کاعلم اس کوہوبھی ، توہم کواس پراعتماد کرنے سے سخت منع کردیاگیاہے ارشاد ہے: ’’ لایعلم الغیب الا اللہ ،، .

(4)  اوراس لیےکہ یہ صورت عمل حوائج ودفع مضرات میں شیطان وجن سےاستمداد واستعانت کی ہے، جوشرک ہے

(5)  اورا س لیے کہ یہ صورت علم فرقہ یمسن (ضالہ ، مضلہ  ، مرتدہ ، واجب القتل  ) کے فن سےمشابہ ہےجس کاموضوع مغیبات سےبحث اوران کاادراک ہے، اورجس کا غرض وغائت حوائج ودفع مضرات میں ، شیاطین وجنات سےاستمدادواستعانت ہے۔تقصیل (دلیل الطالب ص : 775)میں ملاحظہ ہو ۔

(6)  اوراس لیے کہ یہ عرافت (خاص طریقے پرمسروقہ اشیاءاور گم شدہ جانورکا

پتہ اوراس کی جگہ معلوم کرنی ہے۔ اورعرافت ممنوع ) ہے۔

(7)  او راس  لیے کہ چوری وغیرہ کااس طر ح پتہ لگانے اوراس ، اوراس پراعتماد

کرکےکسی پرسارق کاحکم لگانے کی اجازت نہ آں حضرتﷺ نےدی ہے اور نہ صحابہ وتابعین سےیہ ثابت ومنقول ہے۔بنابریں بدعت ومردودہےا ور اس کا مرتکب مبتدع ، ضال ومضل ہے۔

علامہ نواب صدیق حسن قنوجی ﷫ فرماتےہیں : ’’ علمے وعملےکہ شریعت حقہ برجوازش دال نہ باشد ، غیرمشکوۃ نبوتِ محمد بودوبعید اللیتاواللتی یکے ازاصناف غیوب قراردادہ آیدوایں نوع غیب شناسی ، دریکےازاقسام کہانت یاشعبدہ یاسحرباشد، شک نیست کہ فاعل آن وقائل بدا ں یکےاز مشرکان ، وبرگردندگاں ازدینِ اسلام است وحکم کہانت وسحروطلسمات وشعوذت وآنچہ بداں می ماند  ورکتب دین بمواضع خود مبین است حاجت ذکر ادلہ از کتاب وسنت مطہرہ دریں جانیست ، پس ہیچ شک درآں نتواں کروکہ صاحب این اعمال کفرِ صرف ، ور‎ِدّت محض است ، وللہ درالعلامة ابن خلدون ، حيث ختم كلامه المبسوط على هذا الأعمال بهذا الكلام الجامع ، وهو قوله : ولاسبيل إلى معرفة ذلك من هذا الأعمال ، بل البشر محجوبون عنه ، وقد استأثر الله تعالى بعلمه ، والله أعلم وأنتم لاتعلمون  انتهى ،، (دليل الطالب  : 792 )

(8)  اور اس لیے  کہ زید اس طرح غیب  دانی وغیب بینی  کی کوشش کرتاہےاور

تمام  طریقے غیب دانی کےاورجمیع انواع غیب بینی کےضلالت ہیں ۔ نواب ممدوح تحریر فرماتےہیں : ’’  وعلی الجملۃ ہرچہ باشد نبوت کہ افضل طرق مدارک حق است ہمہ انواع غیب دانی وغیب  بینی ضلالت بحث است خواہ بمعانا ت اسباب اورضاع فلکیہ باشد یاارضیہ وخواہ بواسطہ عزائم واسماء بودیابغیر آں وازشریعت مطہرہ بضرورت نقل وشہادت عقل ثابت است کہ علم غیب ازاں اشیاء کہ او تعالیٰ مستاثربدانستن اوست احدے راادعائےآں نمیر سدواکریکے دعوی ٰ  کندخلافت حق کردہ باشد وآنچہ ازمغیبات بیان سازو ہرچند مطابق  واقع شوددرخور قبول نیست وہیچ مدرک ازین مدارک خالی ازمضادت شریعت حقہ نباشدولہذا  شریعت محمد ی بابطال آں ہمہ وارد گشتہ واعتقاد وغیب دانی بینی رااز موجبات کفر وکافری واز انواع مشرک وشرکےکہ مخالف توحیدالہی وتصدیق رسالت پناہی است گردانیدہ اند ۔ ابن خلدون گفتہ معارف وخوارق  انبیاء  ِعلیہم السلام   واخبار الیشان بکائنات مغیبہ بتعلیم الہی است بشرراسبیلے بمعرفت آں نیست مگر بوساطت ایشاں وایں معارف انبیاءعین حق است واماکہانت پس وحی شیطانی ست ،، (دلیل الطالب : 70 ) .

(9)  اوراس لیےکہ زید قرآنی آیات اورسورتوں کوبےمحل استعمال کرکےاس کی توہین کرتاہے۔ قرآن کریم ان اعمال کےلیے نہیں نازل ہواہے، پس زید کواپنے اس غیر شرعی عمل سےجلدباز آنا چاہیے ۔ جولوگ زید کےپاس

اس مطلب کےلیے جاتےہیں اورعمل حاضرات کودرست سمجھ کراس پراعتماد کرتےہیں سخت گنہگار ہیں ۔ ارشاد ہے  :’’من أتى كاهنافصدقه بمايقول ، فقد برئ بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم ،، (ابوداؤد   : كتاب الطب ، باب فى الكاهن 4/ 226)وغيره  ) اس طرح سےحاصل شدہ پیسوں کامسجد کےمصارف میں خرچ کرنا ناجائز ہےکیونکہ  وہ مال حرام ہے’’  ونهى رسو ل الله صلى الله عليه ووسلم عن حلوانه الكاهن ،، (ترمذى  :   كتاب الطب ، باب ماجاء فى اجراكاهن ( 2071)4/351،وبحارى كتاب الطلاق باب مهرالبغى والنكاح 6/ 188 )  وغيره ) اور مال حرام وغيره طيب كامسجدمیں صرف کرنا ممنوع وناجائز ہے۔ارشادہے :’’إن الله طيب لايقبل إلاالطيب،، (صحيحين :  بخارى ، كتاب الزكوة ، باب الصدقة من كسب طيب-ومسلم ، كتاب الزكوة باب قبول الصدقة من الكسب الطيب (1015)2/207) اورايسے شخص کوامامت سےقدرت ہوتومعزول کردینا چاہیے  ارشاد ہے: ’’ اجعلواائمتکم خیارکم،، وہ شخص معلون ہےجس کی امامت کوبوجہ اس کےامرمذموم عندالشرع کےمرتکب ہونے کےلوگ ناپسند کریں ۔،، ( ترمذی : کتاب لصلاۃ باب  ، باب ماجاءفی من ام قوما و ہم لہ کارھون  (5346 ) 2؍1 . وغیرہ ) فلیتہ ، گنڈےبنانامکروہ ہے۔گرہوں پر کچھ پڑھ کر پھونکنا ۔’’  من شرالنفاثات فی العقد ،، میں داخل ہے۔افسوس  ہےکہ جن افات سے اہل حدیث پر ہیز کرتےتھے اورجوبدعتیوں کاشعارسمجھی جاتی تھیں ۔اب اہل حدیث عوام ہی نہیں بلکہ ہمارے بعض علماءنےبھی بغیر کسی جھجک کےان کواختیار کرناشروع کردیا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ذریعہ معاش بنالیا ہے۔ (محدث دہلی ) 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 220

محدث فتویٰ

تبصرے