سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(111)مسجد میں خوشبو کے لیے اگر بتی جلانا کیسا ہے؟

  • 16100
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3648

سوال

(111)مسجد میں خوشبو کے لیے اگر بتی جلانا کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز کےاوقات یاان کےعلاوہ مسجد میں خوشبو کےلیے اگربتی جلانا کیسا ہے؟ کچھ لوگوں کاخیال ہےکہ یہ خلاف سنت اورآتش پرستی کےمترادف ہے، کیایہ اعتراض درست ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آں حضرت ﷺ نےمسجد کی تطبیب (یعنی اس کوخوشبوداربنانے )کاحکم دیا ہےاوراس کی کوئی خاص صورت نہیں بتائی ،اس لیے چاہے عطریامشک وزعفران دیواروں میں پوت کراور لگا کر مسجد کوخوشبودار بنایاجائے ،یاعوداوراگربتی جلا کر اس کومطیب ومعطر کیاجائے ،دونوں جائز ہے، اس تطیب سےحکم نبوی پرعمل کرنے کی ہونی چاہیے اورمقصد حصول اجروثواب ہونا چاہئے،اس میں نام ونمود اورداد وتحسین کی طلب وخواہش کادخل نہ  ہونا چاہیے۔مسجد میں بخوروعود اگربتی جلانے کوبدعت اورخلاف سنت سمجھنا یاآتش پرستی کےمترادف اورمشابہ کہنا غلط بات ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو غلو اور افراط وتفریط سےبچائے ۔

’’عن عائشة : قالت أمر رسول الله ببناء المسجد فى الدور، وان ينطف ويطيب ،،(ابوداؤد،ترمذى،ابن ماجه،ابن حبان  قوله : ’’ )ويطيب ) أى يرش العطر ، ويجوز أن يحمل التطيب على التجمير بالبخور  فى المسجد ، وفيه أنه ليستحب تجمير المسجد بالبخور ،فقدكان عبدالله يجمر المسجد ، إذا قعد على المنبر ، واستحب بعض السلف التخليق بالزعفران  والطيب ، وروى عنه عليه السلام فعله ، قال الشعبى : هوسنة ، وأخرج ابن أبى شيبة : أن ابن الزبير لما بنى الكعبة ،حلي حيطانها بالمسك ، ، ( مرعاة : 2/ 427) .عبیداللہ مبارکپوری 23؍رمضان 1391ھ(محدث بنارس اگست 1997ء ) 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 211

محدث فتویٰ

تبصرے