سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(106)مسجد کے لئے وقف شدہ زمین کو فروخت کرنا

  • 16095
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2234

سوال

(106)مسجد کے لئے وقف شدہ زمین کو فروخت کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 زید نےکچھ زمین کسی مدرسے کےلیے وقف کردی ،اب مہتمم مدرسہ چاہتاہے کہ اس وقف شدہ زمین کوبیچ ڈالے۔زید واقف کہتاہے کہ اگر بیچنی ہے تومیرے ہاتھ بیچ دو۔ پس کیا متولی ومہتمم مدرسہ کوجائز ہےکہ اس زمین موقوف کوفروخت کردے؟ اگر فروخت کرناجائز ہے توکیا خود وقف کرنےوالا اس زمین کوجسے وہ وقف کرچکا ہے خرید سکتا ہے ؟(محمدمسلم از مالدہ) 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 شئ موقوف کاہبہ کرنایابیچنا جائز نہیں ہے۔’’ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ عُمَرَ تَصَدَّقَ بِمَالٍ لَهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يُقَالُ لَهُ ثَمْغٌ وَكَانَ نَخْلًا، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي اسْتَفَدْتُ مَالًا وَهُوَ عِنْدِي نَفِيسٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَصَدَّقْ بِأَصْلِهِ، لاَ يُبَاعُ وَلاَ يُوهَبُ وَلاَ يُورَثُ، وَلَكِنْ يُنْفَقُ ثَمَرُهُ،، (بخاري  - كتاب الشروط باب الشروط فى الوقف 3/185كتاب الوصايا باب وماللوصى أن يعمل فى مال اليتيم 3/194 ، ومسلم كتاب  الوصية ، باب الوقف (1632)3/1255)الوقف لايباع ، لايوهب ولا يورث ،، عالمگیری (4؍523).

صورت مسئولہ میں مہتمم مدرسہ ، مدرسہ پروقف شدہ زمین کوفروخت  نہیں کرسکتا۔ہاں  اگر وہ وقفی زمین مدرسہ کےحق میں بغیر فروخت کیےہوئے بیکاراورکسی طرح بغیر  بیچے ہوئے مفید وکارآمدنہ ہوسکے توفروخت کرناجائز ہے۔لیکن اس صورت  میں وقف کرنے والا اپنی وقف کردہ زمین خود نہیں خرید سکتا۔امام بخاری﷫  نےاپنی  صحیح میں  ’’ باب  وقف الدواب والکراع ،، (3؍17)کےماتحت حدیث ذیل ذکر کی ہے۔’’ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ عُمَرَ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ لَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَعْطَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَحْمِلَ عَلَيْهَا رَجُلًا، فَأُخْبِرَ عُمَرُ أَنَّهُ قَدْ وَقَفَهَا يَبِيعُهَا، فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبْتَاعَهَا، فَقَالَ: «لاَ تَبْتَعْهَا، وَلاَ تَرْجِعَنَّ فِي صَدَقَتِكَ،، .

  (محدث دہلی ج : 8ش :0،ذی الحجہ 1359ھ؍ جنوری 1941ء)

٭ وقف مذکور کےمعاملے میں  مولوی عبدالستار کااقدام درست نہیں ہے۔وقف کےشرط کےمطابق عمل کرنالازم ہےشرط الواقف كالنص  واقف کی زندگی بھر حسب شرط نامزدمتولیان کواس موقوفہ زمین میں کسی کےتصرف کاحق نہیں ہے،اس وقف پرمسجد ومدرسہ کی طرف سےمتولیان کوقبضہ کرنے اورمزارعہ وغیرہ پردینے کاحق واقف کی موت کےبعد ہی ہوسکتاہے ۔واللہ تعالیٰ ہم سب کوعلم وعمل کاپابندکرے۔

 (عبیداللہ رحمانی ،3؍4؍ 1969ء (مکتوب بنام مولانا ابوالخیر فاروقی پرتاپ گڑہی )

 ٭ مدرسہ سےملحق ومتصل موقوفہ زمین کافروخت کرنا یا کسی کوہبہ کرنایعنی : قیمۃً یامفت کسی  کودےدینا ہرگز جائز نہیں ہے،ارشادنبوی ہے:’’ لايباع أصلها ، ولايبتاع ولايوهب ولايورث ،، ( متفق عليه ) البتہ زمین پررہائشی مکان بناکر اسے کرایہ پراٹھایا جاسکتاہے۔اس کا کرایہ مدرسہ پرخرچ کرنا ہوگا ۔

کسی موقوفہ جائیداد کافروخت کرنااسی وقت جائز ہےجب کہ وہ مقصدوقف  کےحق میں بالکل بےکارہوگئی ہو،اورجس کےخراب اورضائع وبرباد ہوجانے کااندیشہ ہو۔اس کے علاوہ کسی صورت وحالت میں اس کافروخت کرنا درست نہیں ہے۔

 عبیداللہ رحمانی ،15؍10؍1398ھ؍27؍12؍1969ء   (مکتوب بنام مولانا ابوالخیر فاروقی پرتاپ گڑھی )

٭ لنگر خانہ کامطلب بظاہر یہ ہےکہ وقف کی آمدنی سے غرباء ، فقراء، مساکین اوریتامیٰ  کوکھانا تقسیم کیاجائے۔اگر اس کامطلب  فقط اسی قدر ہےاوریہ ’’لنگر خانہ،،اس قسم کانہیں ہےجیسا کہ مشہور مزاروں کےلنگر خانے ہیں یاگدی اورسجادہ نشینوں کی خانقاہوں کےلنگر خانے ہوتےہیں توواقف  کی ہدایت کےخلاف کرنادرست نہیں ہے۔

ابن قدامہ لکھتےہیں : ’’ إن مصرف الوقف يتبع فيه شرط الواقف ،، (مغنى 8/236)اوراگر یہ لنگر خانہ بدعت اوربیہودہ رسم ورواج یاشرک کی تقویت واشاعت کاذریعہ ہوتا ہے، توواقف کی تصریح کےبرخلاف اس کی آمدنی سےخالص دینی مدرسہ کااجراء  کیاجاسکتا ہےاورطلبہ دین کی ضروریات پراس کوخرچ کرسکتےہیں ۔’’ أَنَّ الْوَقْفَ لَا يَصِحُّ إلَّا عَلَى مَنْ يُعْرَفُ  وَرَجُلٍ مُعَيَّنٍ، أَوْ عَلَى بِرٍّ، كَبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ وَالْقَنَاطِرِ، وَكُتُبِ الْفِقْهِ وَالْعِلْمِ وَالْقُرْآنِ، وَالْمَقَابِرِ، وَالسِّقَايَاتِ وَسَبِيلِ اللَّهِ، وَلَا يَصْلُحُ عَلَى معصية  ، ، الخ (مغنى8/ 234).

(ب ) کےماتحت ذکر کردہ سوال کامقصد بظاہر یہ ہےکہ جس وقف کےمتولی (خواہ وقف کرنےوالے ہوں یاان کی اولاد واحفاء) موجودنہ رہیں تواس وقف کی تولیت ونگرانی کاحق عام مسلمانوں کاہے یا حکومت کا ؟

اگر یہی  مقصد ہےتو وقف کی تولیت ونگرانی کاحق خواہ وہ مسجد وخانقاہ کےلیے ہویا مدارس ومکاتیب  کےلیے، حکومت وقت کاہے۔بشرطیکہ وہ حکومت اسلامی ہو۔’’وإن قلنا أن تلك الوقف لله، فالحكم ينوب فيه ويصرفه إلى مصارفه ، لأنه مال الله،فكان النظر فيه إلى حاكم المسلمين ، كالوقف على المساكين ، وأماالوقف على المساكين والمساجد ونحوها، أو على من لا يمكن حصرهم واستيعابهم ، فانظرفيه إلى الحاكم ،،(المغنى8/ 237)۔

موقوفہ جائدادوں کےبارےمیں  موجودہ حکومت کی کیا پالیسی ہےاس  کامجھ کوپورا صحیح علم نہیں ہے۔غیرمسلم حکومت ہوتو تولیت  ونگرانی کاحق  دین دار امین مسلمان کی جماعت کاہے۔

  عبیداللہ رحمانی 5؍8؍ 1378ھ،؍14؍2؍1959ء  ( مکاتیب شیخ رحمانی بنام مولانا امین اثری ص : 66؍67 )

٭ نحمده ونصلى على رسوله  محمدوعلى آله وأصحابه واحزابه الى قيامته اما بعد:

(1)مقر کی ملکیت مقبوضہ باغیچہ سیدووالا و باغیچہ ووالا کانصف اوراوس کےساتھ اورشئ واقف نےوقف کیاہو، یہ وقف صحیح ہے۔جس کا اجراء واقف کےزمانہ سے شروع ہوگااوریہ وقف صحیح ہے۔جس کااجراء واقف کےزمانہ سے شروع ہوگااوریہ وقف علیحدہ جس  ضابطہ سےلکھا گیاہے۔وقول واقف کاشرعا معتبر ہے۔اس کاذکر وصیت نامہ میں موجود ہے۔مسجد ٹاہلی والی میں خرچ ہوگا۔

(2)وصیت نامہ جوتحریر ہےثلث مال سےچٹھاں حصہ  مسمی عبدالکریم کودیاجائےگا،اوس کےبعد وارثان عبدالکریم کاہے اورثلث  سےچھٹاں حصہ مسجدٹاہلی والی اورمدرسہ اہل حدیث  میں صرف ہوگا یہ بھی  وقف  کےحکم میں ہےاس  نقص  درست نہیں ،اورثلث مال  میں  سےچار حصہ جوباقی  رہا وقف کےحکم میں ہے۔وصیت کااجزاء ضروری ہے۔:’’ فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ،، الأية .

1۔ اس لیے کہ موصی نےوصیت کووقف کیاہے۔

2۔ آمدنی فقراء مسلمین وذی حاجت مسلمین میں خرچ ہوگا، رشتہ داروغیرہ اس میں کل شامل ہیں ۔اس لیے کہ  یہ وصیت حکم میں  وقف کےہے۔

3۔ دین مہر زوجہ کامل مال سے اداکیاجائے گا اجراء وصیت کا، اس کےبعدہے۔

4۔ اورجومکان بیوی کےسکونت کےلیے دیا ہے،اوس مکان میں بیوی زندگی تک سکونت رکھےگی ،اورس کےبعد ورثاء تقسیم شرعی کریں ،اوسے مکان سےہرگزاخراج جائز نہیں ۔آیت کوہم ،مذکورہ اس امر ب‎پردلیل ہے۔

5۔ جائیداد موقوفہ  کامتولی متدین متقی آدمی ہوناچاہئے ۔اگر قرابت میں سےہیں ھ،وہ مقدم ہیں ۔اوراگر قرابت والوں میں سے وقف کےتلف کاخوف ہےتوغیرقرابت والے مسلمان متدین متقی متولی مقرر کئےجاویں ۔

حضرت عمر ﷜ جائداد وقف کی آب کےبعد عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما متولی رہے۔صحیح بخاری میں ہے:’’ وكان ابن عمر هويلى صدقة عمر، ويدى الناس من اهل مكة كان ينزل اليهم ،،.

در مختار میں ہے:’’ مادام يصلح للتولية من أقارب الواقف ، لايجعل المتولى من الأحانب، لانه أشفق ، ومن قصد نسبة الوقف اليهم ،،انتهى .

(6) جائیداد موقوفہ اورجومثل وقف کےہے اس کانقص درست نہیں ہے۔حضرت عمر ﷜ نےاپنی زمین خیبر کی جوبہترین زمین تھی اس  کووقف کیا۔’’ قال النبى صلى الله عليه وسلم : ’’ تصدق باصله لايباع ولايوهب ولايورث ، ولكن ينفق ثمره ،فتصدق به،، رواه البخارى وزاد الدارقطني  :  مادامت السموات والأرض ،،.

جب تک آسمان زمین قائم ہیں وقف قائم رہےگا۔در مختار میں ہے۔’’فإذا تم ولزم يملك ولا يعادولا يرهن ، فلا يجوز الطاله ولا يورث عنه، وعليه الفتوى ،، كذا فى العالمگیرية فقط والله أعلم وعلمه أتم .

حررہ احمداللہ سلمہ غفرلہ از مدرسہ زبیدیہ نواب گنچ دہلی مؤرخہ 5؍ربیع الاول 1358ھ

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 202

محدث فتویٰ

تبصرے