السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بستی جگت پور میں ایک مسجد ہےجس کےلیے کوئی وقف زمین نہیں اوروہ مسجد جس زمین پربنائی گئی ہےاس کےبعض حصہ کی مالک ایک عورت ہےجوکہ اپنے حصے کووقف کرنے پرراضی نہیں ہوتی ۔بعد ازاں وہ تما م زمین نیلام ہوگئی اورجماعت کےلوگوں نے ایک نئی مسجد دوسری زمین پربنالی ہے ، جس میں جماعت کےتقریبا تمام مسلمان نماز پڑھتے ہیں سوائے چندافراد کےاوروہ چند افراد مسجد قدیم میں نمازپڑھتےہیں ۔اب بتلائیے کس مسجد میں شرعاً نماز درست ہوگی ؟ بینو بالدلیل وتوجرواعندالجلیل ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ السائل : محمد حسین ضلع ترپورہ ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہوکہ کوئی زمین مسجد کاحکم نہیں پاسکتی جب تک اس کواس کامالک وقف نہ کردے اوراس سے مالک زمین کاتعلق اٹھ نہ جائے اوراس کاکوئی حق اس میں باقی نہ رہے ۔اور چوں کہ بستی جگت پور کی مسجد زمین کی ایک حصہ دارعورت اپنےحصے کووقف کرنے پرراضی نہیں ہے، اس لیے یہ مسجد کےحکم میں نہیں قراردی جائےگی،لیکن اگراس عورت نےاورحصے داروں کی طرح بغیر وقف کئے ہوئے لوگوں کی اس میں نماز پڑھنے کی اجازت دےدی ہے تو اس میں بلاکراہت نما زجائز ہے۔
دوسری نئی مسجد کی زمین اگرموقوفہ ہےتوبلاشبہ وہ مسجد شرعاً ہمیشہ کےلیے مسجدہوگئی جس کی بیع وشراء جائزنہیں ۔اگر ایسی مسجد منہدم بھی ہوجائے اوراس کانام ونشان بھی باقی نہ رہے تب بھی اس کی زمین ہمیشہ کےلیے مسجد ہی رہتی ہےاورکبھی بھی وقف کرنے والے یااس کےوارثوں کی ملکیت میں نہیں آتی ۔واللہ اعلم بالصواب ۔
کتبہ عبیداللہ المبارکفوری الرحمانی المدرس بمدرسۃ دارالحدیث الرحمانیہ بدہلی 27 ؍ جون 1941ء
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب